سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176) مقروض کو زکات سے روپیہ دے کر واپس لینا جائز ہے یا نہیں؟

  • 22941
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 873

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مدیون کو زکوۃ سے روپیہ دے کر واپس لے لینا جائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوۃ دہندہ کو بطور مد زکوۃ سے مدیون یا اور کسی کو دینا ہی جائز نہیں ہے۔ مشکوۃ میں ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليهخ وسلم بعث معاذا الي اليمن فقال: انك تاتي قوما(الي) فاعلمهم ان الله قد فرض عليهم صدقة توخذ من اغنيائهم فترد علي فقرائهم الحديث[1](متفق علیه)

سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ بلا شبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا : یقیناًتو ایسی قوم کے پاس جانے والا ہے۔تو ان کو بتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پرزکات فرض کی ہے جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے فقیروں کو دی جائے گی)

فتح الباری (2/57)میں ہے۔

"استدل به علي ان الامام هوالذي يتولي قبض الزكاة وصرفها اما بنفسه واما بنائبه"

(اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ امام وقت (خلیفہ وغیرہ )ہی زکات وصول کرنے اور اسے تقسیم کرنے کا ذمے دار وحق دار ہے خواہ وہ یہ کام خود کرے یا اپنے کسی نائب سے کروائے)

شرح عمدۃ الاحکام (2/3)میں ہے۔

"قد يستدل به علي وجوب اعطاء الزكاة للامام لانه وصف الزكاة بكونها ماخوذة من الاغنياء فكل ما اقتضي خلاف هذه الصفة فالحديث ينفيه "

(یقیناً اس حدیث سے یہ استدلال کیا جا تا ہے کہ زکات امام کو جمع کروانا واجب ہے کیونکہ اس حدیث نے زکات کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ وہ اغنیاسے لی جائے گی پس ہر وہ چیز جس کا تقاضا اس صفت کے خلاف ہے تو حدیث اس کی نفی کرتی ہے)

"نیل الاوطار"(4/10)میں ہے۔

"استدل به علي ان ولاية  قبض الزكاة الا الامام والي ذلك ذهبت العترة وابوحنيفة واصحابه ومالك والشافعي في احد قوليه"

(اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ زکات وصول کرنے کا ذمے دار امام ہے چنانچہ عترہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ان کے شاگرد مالک اور شافعی اپنے دو قولوں میں سے ایک قول میں اسی طرف گئے ہیں)

نیز مشکوۃ (ص:149)میں ہے۔

عن  ابي هريرة رضي الله عنه قال لما توفي النبي صلي الله عليه وسلم واستخلف ابو بكر بعده(الي) فقال: والله لو منعوني عناقا كانوا يودونها الي رسوالله صلي الله عليه وسلم لقاتلتهم  علي منعها[2](الحدیث متفق علیه)

(سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوگئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد ابو بکر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  خلیفہ بنے ۔تو انھوں (ابو  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ) نے کہا:اللہ کی قسم !اگر انھوں نے بھیڑکا بچہ جو وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیا کرتے تھے مجھے دینے سے انکار کیا تو میں اس کے انکار پر بھی ان سے ضرورقتال کروں گا)

سورہ توبہ میں ہے ۔

﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها ...﴿١٠٣﴾... سورة التوبة

(ان کے مالوں سے صدقہ لے اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا)فتح القدیر شرح ہدایہ (1/311)میں ہے۔

"قوله تعالي(خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ)يوجب حق اخذ الزكاة مطلقا للامام وعلي هذا كان رسول الله صلي الله عليه وسلم والخليفتان بعده فلما ولي عثمان رضي الله عنه وظهر تعبير الناس كره ان يفتش السعاة علي الناس مستور اموالهم ففوض الدفع الي الملاك نيابة عنه ولم يختلف الصحابة رضوان الله عنهم اجمعين عليه في ذلك وهذا لايسقط طلب الامام اصلا"

(اللہ تعالیٰ کا فرمان خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ زکاۃ وصول کرنے کا حق مطلق طور پر امام کے لیے واجب کرتا ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد دونوں خلفا اسی پر کار بند رہے پھر جب عثمان رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  خلیفہ بنے اور لوگوں کے حالات بدل گئے تو انھوں نے ناپسند کیا کہ عاملین زکات لوگوں کے خفیہ مالوں کی جانچ پڑتال کریں لہٰذا انھوں نے اپنی نیابت میں متعلقہ اسٹاف کو یہ کام سونپ دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس بارے میں ان سے کوئی اختلاف نہ کیا مگر اس سے امام کا طلب کرنا سرے سے ختم نہیں ہو تا)

"شرح معانی الآثار للطحاوی"(1/312)میں ہے۔

"للامام ان يولي اصحاب الاموال صدقات ا موالهم حتي يضعوها مواضعها وللامام ايضا ان يبعث عليها مصدقين حتي يعشروها وياخذوا الزكاة منها وهذا كله قول ابي حنيفة وابي يوسف ومحمد"

(امام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مال دار لوگوں کو یہ کام سپرد کردے کہ وہ اپنے مالوں کی زکات زکات کے مصارف میں خرچ کریں نیز امام کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ صدقہ وصول کرنے والے عامل ان کے پاس بھیجے جو ان سے عشر و زکات وصول کریں یہ سب امام ابو حنیفہ ابو یوسف اور محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف ہے)

"السیل الجرار"میں ہے۔

جعل الله سبحانه للعامل علي الزكاة جزءا منها في ا لكتاب العزيز فالقول بان ولا يتها الي ربها يسقط مصرفا من مصارفها صرح به الله سبحانه في كتابه العزيز[3]

 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کتاب عزیز میں ذکاۃ کے عامل کے لیے ذکاۃ میں سے ایک حصہ رکھا ہے پس اس موقف سے کہ ذکاۃ کی ادائی صاحب مال کے ذمے ہے مصارف ذکاۃ میں سے ایک مصرف ساقط ہوجاتا ہے۔جس کی اللہ نے اپنی کتاب میں صراحت کی ہے۔

پھر "السیل الجرار"میں ہے:

"قد كان امر الزكاة الي رسول الله صلي الله عليه وسلم  بلا شك ولا شبهة وكان يبعث السعاة لقبضها ويامر من  عليهم الزكاة بدفعها اليهم وارضائهم واحتمال معرتهم وطاعتهم ولم يسمع من ا يام النبوة ان رجلا او اهل قرية صرفوا زكاتهم بغير اذن من رسول الله صلي الله عليه وسلم وهذا الامر لايجحده من له ادني معرفة بالسيرة النبوية والسنة المطهره وقد انضم الي ذلك التوعد علي الترك والمعاقبة باخذ شطر المال وعدم الاذن لارباب الاموال بان يكتموا بعض اموالهم من الذين يقبضون الصدقة منهم بعد ان ذكرواله انهم يعتدون عليهم ولوكان اليهم صرف اموالهم لاذن لهم في ذلك"[4]

زکوۃ کا معاملہ بلا شک وشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سپرد تھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  زکاۃ و صول کرنے کے لیے عاملین زکوۃ کو روانہ کرتے تھے اور جن کے ذمے زکوۃ واجب ہوتی انھیں حکم دیتے کہ وہ ان عاملین کو ذکوۃ ادا کریں۔ ان کو راضی کریں ان کی سختی برداشت کریں اور ان کی اطاعت کریں۔ زمانہ نبوت میں یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی آدمی نے یا کسی بستی کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت کے بغیر خود ا پنی زکوۃ کو تقسیم کیا ہو۔جس شخص نے سیرت نبویہ اور  سنت مطہرہ کی ادنا سی بھی معرفت حاصل کی ہے وہ اس بات کا انکار نہیں کرسکتا۔مزید یہ کہ جب مال دار لوگوں نے عاملین کی زیادتی کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو شکایت لگائی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو زکوۃ ادا نہ کرنے پر دھمکی دی،ان کا نصف مال چھین لینے کی سزا سنائی اور ان مال داروں کو یہ حکم دیاکہ وہ زکوۃ وصول کرنے والے عاملین سے اپنے مال ہرگز نہ چھپائیں۔اگر ان مال داروں کو اپنی زکوۃ خود  تقسیم کرنے اور صرف کرنے کا حق ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی ضرور اجازت دے دیتے۔

نیز السیل الجرار میں ہے:

"وهذ الحديث اوضح دليل علي ان ولاية صرف الزكاة ليست الي اربابها بل عليهم ان يدفعوها الي الامام او نائبه ولو كانت الولاية اليهم لجاز صرفها الي مصارفها بانفسهم ولم يتوقف قبولها علي دفعها الي الامام او نائبه ولم يجز للامام العتاب علي من لم يدفعها اليه لا حتمال انه قسمها بنفسه في مصارفها" 

 یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ زکوۃ کو از خود صرف کرنے اور تقسیم کرنے کی  ذمہ داری زکوۃ دینے والوں کے سپرد نہیں ہے بلکہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ امام یااس کے نائب کو زکوۃ جمع کروائیں۔

اگر یہ کام ان کے سپرد ہوتا تو ان کے لیے زکوۃ کو اس کے مصارف میں صرف کرنا جائز ہوتا اور زکوۃ کی قبولیت امام یا اس کے نائب کو ادا کرنے پر موقوف نہ ہوتی اور امام کے لیے اس شخص کو سزا  دینا جائز نہ ہوتا جو اسے زکوۃ جمع نہ کروائے،کیوں کہ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ اس شخص نے از خود زکوۃ کو اس کے مصارف میں خرچ کردیا ہو۔

اور بھی مشکوۃ میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه حملت علي فرس سبيل الله فاضاعه الذي كان عنده فاردت ان اشتريه وظننت ان يبيعه برخص فسالت النبي صلي الله عليه وسلم  فقال:(( لا تشتره ولا تعد في صدقتك وان اعطاكه بدرهم فان العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه  والله تعالي اعلم"[5]

عمر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑا بطور سواری عطا کیا تو اس نے اسے ضائع کردیا۔میں نے اسے خریدنا چاہا اور مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے ارزاں نرخوں پر  فروخت کردے گا،میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اسے خریدو اور نہ اپنا صدقہ واپس لو خواہ وہ ایک درہم میں تمھیں عطا کرے،کیوں کہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اپنی قے چاٹنے  والے کی طرح ہے۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1425)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (6526)صحیح مسلم رقم الحدیث (20)

[3] ۔السیل الجرار للشوکانی (1/240)

[4] ۔السیل الجرار(1/260)

[5] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث (1419) صحیح مسلم ر قم الحدیث(1602) مشکاۃ المصابیح(1/441)
 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الزکاۃ والصدقات ،صفحہ:350

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ