سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) چندہ اکٹھا کرکے کار خیر میں خرچ کرنا

  • 22939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 788

سوال

(174) چندہ اکٹھا کرکے کار خیر میں خرچ کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اطراف و اکناف سے چندہ وصول کرکے کارخیر میں صرف کیا کرتا ہے مثلاً مسجد و مدرسہ و خرچ نکاح پل و تالاب وغیرہ آیا یہ شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر ان امور کی واقعی ضرورت ہوتو چندہ وصول کرکے ان امور میں صرف کرنا جائز ہے ورنہ ناجائز ۔

عَنِ جَرِيرٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي صَدْرِ النَّهَارِ. قَالَ: فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ. مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ. عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ. بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ. فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللّهِ - صلى الله عليه وسلم - لِمَا رَأَىٰ بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ. فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ. فَأَمَرَ بِلاَلاً فَأَذَّنَ وَأَقَامَ. فَصَلَّى ( وفي رواية : الظهر ) ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ} إِلَىٰ آخِرِ الآيَةِ. {إِنَّ الله كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً} وَالآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ: {اتَّقُوا الله وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا الله} تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ (حَتَّىٰ قَالَ) وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ» قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا. بَلْ قَدْ عَجزَتْ. قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ.[1](رواہ مسلم)

(جریر  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم دن کے آغاز میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے انھوں نے اونی دھاری دار یا عام چادریں پہن رکھی تھیں اور وہ تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے ان میں سے اکثر بلکہ سب مضر قبیلے سے تھے ان کی تنگ حالی اور بھوک دیکھ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہ انور کا رنگ بدل گیا ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  گھر تشریف لے گئے پھر باہر آگئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلال رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کو اذان دینے کاحکم دیا۔ ۔انھوں نے اذان و اقامت کہی ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جماعت کروائی پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ ارشاد فرمایا :

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَبَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ...﴿١﴾... سورة النساء

(اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا) اور سورۃ الحشر کی آیت تلاوت کیا:

﴿ اتَّقُوا اللَّهَ وَلتَنظُر نَفسٌ ما قَدَّمَت لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ ... ﴿١٨﴾... سورة الحشر

(اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیاآگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو)پس کسی نے دینار صدقہ کیا کسی نے درہم کسی نے کپڑا کسی نے گندم کا صاع اور کسی نے ایک صاع کھجور یں صدقہ کیں حتی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرو"راوی بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی اٹھاتے ہوئے آیا قریب تھا کہ اس کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز آجائے بلکہ عاجزہی آگیا پھر لوگ مسلسل آنے لگے۔الحدیث)[2]کتبہ: محمد عبد اللہ (18/محرم 1327ھ)


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1017)

[2] ۔1839۔عن عبدالله بن عمر رضي الله عنه قال قال:رسول الله صلي الله عليه وسلم (( مايزال الرجل يسال الناس حتي ياتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم"

(متفق علیہ :صحیح البخاری رقم الحدیث :174)صحیح مسلم :104/1040)

"عبد اللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب وہ روز قیامت پیش ہوگا تو اس کے چہرے پر کوئی گوشت نہیں ہو گا۔"

"عن سمرة بن جندب رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ((المسائل كدوح يكدح بها الرجل وجهه فمن شأء ابقي علي وجهه ومن شاء تركه ان يسال الرجل ذا سلطان اوفي امر لايجد منه بدا"

رواہ ابو داؤد الترمذی والنسائی ) (سنن ابی داؤد رقم الحدیث :1639) سنن الترمذی رقم الحدیث :681وقال صحیح سنن النسائی رقم الحدیث :26)

"سمرہ بن جندب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : سوال کرنا خراش ہے آدمی ان کی وجہ سے اپنے چہرے پر خراشیں ڈالتا ہے جو چاہے انھیں اپنے چہرے پر باقی رکھے اور جو چاہے انھیں ترک کردے البتہ آدمی بادشاہ سے سوال کرے یا کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کرےجس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتو پھر سوال کرنا جائز ہے۔"
 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الزکاۃ والصدقات ،صفحہ:348

محدث فتویٰ

تبصرے