میت کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر کے ارد گرد کھڑے ہوکر اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا حدیث نبوی سے ثابت ہے یا نہیں؟نیز گزارش ہے کہ ماحصل تحریر جواب سابق کایہ ہے کہ بعد دفن المیت اس کے لیے استغفار کا ثبوت ہے اور آداب دعا سے رفع الیدین بھی حدیث نبوی سے ثابت ہے پس بعد دفن المیت اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر کرنا جائز ہے تو حضور میت کو دفن کرنے کے بعد کے لیے استغفار کا ثبوت ہے نہ کہ دعا کا اور رفع الیدین آداب دعا سے ہے نہ کہ استغفار سے۔ اس لیے کہ آداب استغفار سے ۔
ان تشير باصبح واحدة(سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1489)مشکاۃ المصابیح (108/2) (مشکوۃ باب الدعاء )
پس جب تک میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے لیے دعا کا ثبوت نہ ہو تب تک کیونکر میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا عمل اس پر محمول اس پر محمول کیا جائے گا؟ محض بخیال رفع شک و احتمال بھی گزارش ہے کہ کیا لفظ استغفار اور لفظ دعا دونوں شے واحد ہیں یا نہیں اور جو حکم استغفار کا ہے وہی حکم دعا کا بھی ہے یا نہیں ؟اگر ہے تو پھر آداب استغفار کی نسبت ان تشير باصبح واحدة فرمانے کا اور آداب دعا کی نسبت :
ان ترفع يديك حذو منكبيك او نحوهما(مصدرسابق) (مشکوۃ باب الدعاء )
کے کیا مطلب ہوں گے؟تحریر فرمائیں۔
استغفار بھی دعا میں داخل ہے استغفار کے معنے ہیں مغفرت مانگنا اور دعا کے معنی ہیں کچھ مانگنا ۔ کچھ مانگنے میں مغفرت مانگنا بھی آگیا اسی لیے اس حدیث کو جس ان تشير باصبح واحدة (کہ تو ایک ہی انگلی سے اشارے کرے) ہے مشکاۃ میں باب الدعوات میں ذکر کیاہے ہے ان تشير باصبح واحدة ہاتھ اٹھا کر استغفار کرنے کے منافی نہیں ہے اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے۔
1۔مسئلہ 2۔ استغفار 3۔ابہتال۔ یہ تینوں دعا کے اقسام ہیں ان میں کوئی بھی دعا سے خارج نہیں ہے۔کتبہ: محمد عبد اللہ (25/شوال 1330ھ) واللہ تعالیٰ اعلم ۔