سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(153) اگر جانور خریدنے کے باجود قربانی نہ کرے؟

  • 22918
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے ایک جانور باارادہ قربانی خرید کیا اور کسی وجہ سے ا س کی قربانی نہیں ہوئی اور ایام قربانی گزر گئے۔اب اس جانور کی قربانی دوسرے سال یا قضا درمیان سال کے جائز ہوگی یا نہیں اور اگر دوسرے سال جائز ہو تو ادا ہوگی یا قضا قور اس جانور کو دوسرے مصرف میں مثل عقیقہ یا ولیمہ وغیرہ کے لانا درست ہے یا نہیں؟اس کا جواب قرآن وحدیث صحیح سے ارقام فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں کہ اگر کوئی شخص بہ نیت اضیحہ جانور خریدے اور کسی وجہ سے قربانی نہ کرے اور ایام قربانی گزر جائیں تو اس  جانور کو کیا کرے؟کسی آیت یا حدیث سے اس کا صاف صاف پتہ نہیں چلتا۔لیکن اگر اس مسئلے کو مسئلہ ہدی عمرہ پر،جو حدیث صحیح میں وارد ہے قیاس کریں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگی کہ ایسے شخص کو درمیان سال کے اس جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ 6ھ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے قصد سے احرام باندھے ہوئے مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے۔مکہ والوں نے آگے بڑھ کر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ میں جانے اور عمرہ کرنے سے حدیبیہ کے مقام میں روک دیا،ہر چند اس کی طرف سے کہاگیا کہ ہم لوگ صرف عمرہ کرنے کو آئے ہیں۔عمرہ کرکے چلے جائیں گے لڑنے کو نہیں آئے ہیں،تب بھی مکہ والوں نے نہیں مانا اور اس سال عمرہ کرنے سے روک دیا۔مجبوری آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام اتارا اور ہدی عمرے،یعنی جانور جو عمرہ میں قربانی کرنے کے لیے ساتھ لائے تھے ان کو ذبح کیا۔حالانکہ ہدی عمرہ کے ذبح کرنے کی جگہ شرعا مقرر ہے وہ حرم ہے نہ کہ حرم سے خارج اور یہ جگہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے اصحاب  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے ذبح کیا تھا حرم سے خارج ہےجیسا کہ سورۃ الفتح(پارہ 26،رکوع:11)

﴿هُمُ الَّذينَ كَفَروا وَصَدّوكُم عَنِ المَسجِدِ الحَرامِ وَالهَدىَ مَعكوفًا أَن يَبلُغَ مَحِلَّهُ...﴿٢٥﴾... سورة الفتح

یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمھیں مسجد حرام سے روکا اورقربانی کے جانوروں کو بھی،اس حال میں کہ وہ اس سے روکے ہوئے تھے۔کہ اپنی جگہ تک پہنچیں۔سے ظاہر ہے نیز صحیح بخاری میں ہے:

والحديبية خارج من الحرم[1](حدیبیہ حرم سے خارج ہے)

فتح الباری(2/193 مطبوعہ دہلی) میں ہے:

هو من كلام الشافعي في " الأم " ، وعنه أن بعضها في الحل وبعضها في الحرم ، لكن إنما نحر  رسول الله صلي الله عليه وسلم في الحل استدلالا بقوله تعالي: وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ قال:ومهل الهدي عند اهل العلم الحرم وقد اخر الله تعالي انهم صدوهم عن ذلك اه"

یہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کا کلام ہے۔ ان سے مروی ہے کہ اس (حدیبیہ) کا کچھ حصہ حل میں اور کچھ حرم میں ہے۔لیکن  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حل میں نحر کیا،اس کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَصَدّوكُم عَنِ المَسجِدِ الحَرامِ وَالهَدىَ مَعكوفًا أَن يَبلُغَ مَحِلَّهُ...﴿٢٥﴾... سورة الفتح

اور  تمھیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی، اس حال میں کہ وہ اس سے  روکے ہوئے تھے کہ اپنی جگہ تک پہنچیں۔امام صاحب نے کہا کہ اہل علم کے نزدیک ہدی کے ذبح کرنے کی جگہ حرم ہے اور اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ بالا فرمان میں) یہ خبر دی ہے کہ انھوں نے ان(مسلمانوں) کو اس سے روکا۔

صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے:

"خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم معتمرين فحال كفار قريش دون البيت فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم بدنه وحلق رأسه "[2]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ  عمرہ کرنے کے لیے نکلے تو کفارقریش بیت اللہ کے سامنے حائل ہوگئے۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے(حدیبیہ ہی میں قربانی کا جانور) اپنا اونٹ نحر کیا اور سر منڈوایا۔

مسور بن مخرمہ وغیرہ کی حدیث میں ہے:

"فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِهِ : " قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ........الي قوله :فلما راواذلك قاموافنحروا"[3]

جب عہد نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے (اپنے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے ) فرمایا:"اٹھو! قر بانیاں کرو اور پھر اپنے سر مونڈلو"۔۔۔جب انھوں نے یہ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو ا پنا جانور نحر کرتے ہوئے) دیکھا تو وہ ا ٹھے اور انھوں نے قربانیاں کیں۔

اس سے یہ بات  ثابت ہوئی کہ اگر عمرے میں کوئی شخص باارادہ قربانی جانور خرید کرے اور حرم تک،جو اس کے ذبح کی جگہ شرعاً مقرر ہے۔لے جانے سے روکا جائے تو اس کو جہاں روکا گیا ہے ذبح کردینا چاہیے اور اس کے حق میں  حرم کی تخصیص ساقط ہے۔تو جس طرح ہدی عمرہ کے ذبح کی ایک خاص  جگہ حرم مقرر ہے۔اسی طرح ذبح اضیحہ کا ایک خاص وقت(بقر عید کا دن یا اس کے بعد تک کئی دن) مقرر ہے۔فرق دونوں میں سے صرف جگہ اور وقت کا ہے تو جس طرح ہدی میں مجبوری کی حالت میں جگہ کی قید ساقط ہوجاتی ہے۔اسی طرح اضیحہ میں بھی مجبوری کی حالت میں قیاساً علیہ دقت کی قید ساقط ہوسکتی ہے۔اگر اس مسئلے کو نماز کے مسئلے پر قیاس کریں تو اس سے بھی وہی ثابت ہوگا جو مسئلہ ہدی عمرہ پر قیاس کرنے سے ثابت ہوتا ہے۔ایسے شخص کو اثنائے سال میں اس جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ نماز پنجگانہ کے اوقات مقرر ہیں اور یہ بات سب لوگ جانتے ہیں۔سورت نساء(رکوع:15) میں ہے:

﴿إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

بے شک نماز ایمان والوں پر  ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے۔

حالانکہ احزاب کی لڑائی ہی میں مجبوری سے ظہر،عصر،مغرب کی نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین  نہیں پڑھ سکے۔جب لڑائی سے فارغ ہ ہوئے،تب عشاء کے وقت چاروں نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب نے اکھٹی  پڑھیں تو جس طرح نمازوں میں وقت شرع میں مقرر ہے اسی طرح اضیحہ کا وقت بھی شرع میں مقرر ہے اور جس طرح مجبوری کی حالت میں نمازوں میں وقت کی قید ساقط ہوگئی،اسی طرح مجبوری کی حالت میں اضیحہ میں بھی قیاساً علیہ وقت کی قید ساقط ہوسکتی ہے۔یعنی اگر بوجہ مجبوری وقت مقرر پر قربانی نہ ہوسکے تو جب مجبوری  رفع ہوجائے،اس وقت قربانی کرے اور قربانی کو باصطلاح فقہا قضا کہیں گے،کیونکہ ادا وقضا میں بالصطلاح فقہاء یہی فرق ہے کہ جس کا م کا جو وقت شرعاً مقرر ہے اگراس کو اس کے وقت پر کیا تو اس کا نام ادا ہے اور وقت مقرر کے گزر جانے پر کیا تو قضا ہے۔واضح رہے کہ ان دونوں قیاسوں سے صرف اسی شخص کے حق میں وقت کی قید کا سقوط ثابت ہوگا،جس نے قربانی وقت مقرر پر بوجہ مجبوری نہیں کی،نہ اس شخص کے حق میں جس نے بلاعذر وقت مقرر پر قربانی نہیں کی۔اس کے حق میں وقت کی قید کا سقوط ان قیاسوں سے ثابت نہیں ہوگا  اور کوئی دوسری دلیل جس سے آخر الذکر شخص کی نسبت کوئی حکم ثابت ہو اس وقت پیش نظر نہیں ہے۔لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔


[1] ۔صحیح البخاری(2/643)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1717)

[3] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2581)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ