1۔ایک شہر کی عیدگاہ میں تمام شہر اور دیہات کے حنفی مسلمان نماز عید کے واسطے جمع ہوتے ہیں اورامام بھی حنفی ہے یہ لوگ جماعت اہل حدیث کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل ہوکر پڑھنے اور عیدگاہ میں آنے سے منع نہیں کرتے اور روکتے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنے ساتھ شامل ہوکر نماز پڑھنے کی خوشی سے اجازت دیتے اور مسلمانوں کی جماعت بڑھانے کے واسطے ان کوبلاتے ہیں تو اس صورت میں اہل حدیث کو جماعت حنفیہ کے ساتھ شامل ہوکر عیدگاہ میں ان کے مقتدی بن کر نماز عید پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟
2۔اگر جائز ہے تو اہل حدیث بارہ تکبیریں قبل قرآءت کہنے کے قائل و عامل ہیں اور حنفیہ چھ کے بعد قرآءت قبل الرکوع کے تو اس صورت میں اہل حدیث اپنی تکبیریں کتنی اور کس جگہ کہیں؟
3۔اگر یہ لوگ ان کے ہمرا ہ شامل ہوکر نماز نہ پڑھیں بلکہ دس بیس پچاس آدمی علیحدہ ہوکر نماز عید ادا کریں تو ان پر کچھ شرعی الزام و وعید ہے یا نہیں؟
1۔اس صورت میں اہل حدیث کو جماعت حنفیہ کے ساتھ شامل ہوکر عیدگاہ میں ان کے مقتدی بن کر نماز عید پڑھنی جائز بلکہ ضروری ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
یعنی اللہ کی رسی (دین اسلام یعنی اللہ کی فرمانبردار ی) سب مل کر مضبوط پکڑے رہو اور الگ الگ نہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(رواہ الشیخان عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشکوۃ ص419)
یعنی تم لوگ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بنے رہو۔
اس مضمون کی آیات اور احادیث بہت ہیں ہاں اگر وہ لوگ اپنے ساتھ شامل ہوکر نماز پڑھنے سےجماعت اہل حدیث کو روکتے تو اس صورت میں جماعت اہل حدیث کو البتہ عذر کی جگہ تھی ۔لیکن جب وہ لوگ ان کو روکتے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی جماعت بڑھانے کے لیے بلاتے ہیں تو ضروران کو ان کے ساتھ شامل ہوکر نماز پڑھنی چاہیے واللہ تعالیٰ اعلم ۔
2۔ اہل حدیث تکبیر یں جتنی اور جس جگہ کہتے ہیں اتنی اور اس جگہ کہیں بخاری شریف (311/3)میں ہے۔
(ہمیں فضل بن سہل نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں حسن بن موسیٰ اشیب نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا وہ زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں وہ عطا بن یسارسے روایت کرتے ہیں وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"وہ تمھیں نماز پڑھاتے ہیں پھر اگر انھوں نے ٹھیک نماز پڑھائی تو تمھیں اس (نماز) کاثواب ملے گا اور اگر انھوں نے غلطی کی تو بھی (تمھاری نماز کا) تم کو ثواب ملے گا اور (غلطی کاوبال ) ان پر ہوگا)
فتح الباری (388/1)دہلی ) میں ہے۔
(امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حسن بن موسیٰ سے اسی سند کے ساتھ اس لفظ (ولہم)کا اضافہ کیا ہے ایسے ہی اسماعیلی اور ابو نعیم نے اپنی اپنی مستخرج میں اسے کئی سندوں سے حسن بن موسیٰ کے واسطے سے بیان کیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو دوسری سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "چند قومیں ایسی ہوں گی جو نماز پڑھائیں گی پس اگر وہ پوری نماز پڑھائیں تو تمھیں (اس نماز کا) ثواب ملے گےاور ان کو بھی ۔"ابو داؤد نے عقبہ بن عامر سے مرفوعاًروایت کیا"جس نے بروقت لوگوں کو امامت کرائی تو اسے بھی اور ان کو بھی ثواب ملے گا۔"مسند احمد کی روایت میں اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں۔"پس اگر وہ بروقت نماز پڑھائیں اور رکوع و سجود مکمل کریں تو تم کو بھی اور ان کو بھی اس کا ثواب ملےگا۔"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کے مفہوم میں صفوان بن سلیم کے واسطے سے روایت کیا ہے صفوان سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں اور سعید ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں "ایک ایسی قوم آئے گی جس کے امام تمھیں نماز پڑھائیں گے پس اگر وہ مکمل نماز پڑھائیں تو ان کو بھی اور تمھیں بھی ثواب ملے گا اور اگر وہ نماز میں کسی طرح کی کمی کریں تو اس غلطی کا وبال ان پر ہوگا تمھیں بہر حال ثواب ملے گا۔"
ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :"یہ حدیث اس شخص کے موقف کو رد کرتی ہے جس کا یہ گمان ہے کہ جب امام کی نماز فاسد ہوجائے تو مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے ۔"امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے"شرح السنۃ"میں کہا "اس (حدیث) میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب امام بغیر وضو کے لوگوں کو نماز پڑھادے تو مقتدیوں کی نماز درست ہوگی۔ البتہ امام کو اپنی نماز دہرانا پڑے گی۔امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دیگر اہل علم نے اس حدیث کے ذریعے مذکورہ حالت سے بھی زیادہ عام چیز پر استدلال کیا اور وہ ہے ایسے شخص کی اقتدا میں نماز ادا کرنا جو نماز کی کسی چیز میں خلل پیدا کرنے والا ہو۔خواہ وہ چیز نماز کار کن ہویا غیررکن بشرطیکہ مقتدی اس کو مکمل کر لے۔
بعض اہل علم نے اس سے مطلق جواز پر استدلال کیا ہے اور وہ اس بنا پر کہ اس حدیث میں خطا سے مراد وہ چیز ہے جو عمد کے مقابلے میں ہو۔چنانچہ انھوں نے کہا کہ اختلاف کا محل اجتہادی امور ہیں جیسے وہ شخص جو ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے جو بسملہ کی قرآءت کا قائل نہ ہو۔ وہ اسے قرآءت کے ارکان میں سے جانتا ہو اور نہ اسے سورۃ الفاتحہ کی آیت مانتا ہو۔ بلکہ وہ اس بات کا قائل ہو کہ بسملہ کے بغیر بھی سورۃ الفاتحہ کی قرآءت کفایت کرتی ہے انھوں نے کہا کہ جب مقتدی بسملہ پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی کیوں کہ اس صورت حال میں امام کی حالت زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس نے خطا کی ہے جب کہ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کی غلطی مقتدی کی نماز کی درستی میں اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب مقتدی نے وہ غلطی نہ کی ہو)مثقی میں ہے۔
وقد صح عن عمر أنه صلى بالناس وهو جنب ، ولم يعلم ؛ فأعاد ، ولم يعيدوا ، وكذلك عثمان وروي عن علي من قوله [3](عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ لاعلمی میں انھوں نے جنابت کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی۔چنانچہ انھوں نے اپنی دہرائی جب کہ لوگوں نے نماز نہ دہرائی جب کہ لوگوں نے نماز نہ دہرائی ۔عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس بارے میں ان کا قول روایت کیا گیا ہے)"نیل الاوطار"(52/3)میں ہے۔
منهم من استدل به علي الجواز مطلقا وهو الظاهر من الحديث ويويده ما رواه المصنف عن الثلاثة الخلفاء رضي الله عنهم(ان (اہل علم) میں سے بعض نے تو اس حدیث سے مطلق جواز کا استدلال کیا ہے اور حدیث کا ظاہر مفہوم بھی ہے نیز مصنف نے جو تینوں خلفا سے روایت کیا ہے وہ بھی اس موقف کی تائید کرتا ہے)
ان عبارات مذکورہ بالا کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام کی نماز میں کسی طرح کی کچھ کمی واقع ہوجائے اور مقتدی اس کمی کو پوری کر لے تو مقتدی کی نماز پوری ہوجائے گی۔ امام کی اس کمی سے مقتدی کی نماز میں کچھ خلل واقع نہ ہوگا واللہ تعالیٰ اعلم
3۔اگر اہل حدیث اس صورت میں ان کے ساتھ شامل ہوکر نماز نہ پڑھیں بلکہ علیحدہ ہوکر نماز عید ادا کریں تو ان پر شرعی الزام اور وعیددونوں ہے شرعی الزام تو مذکورہ بالا آیات اور احادیث کی مخالفت ہے اور وعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو الگ الگ ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح احکام آچکے اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بہت بڑا عذاب ہے)
اس مضمون کی اور بھی بہت آیتیں اور حدیثیں ہیں واللہ تعالیٰ اعلم ۔
کتبہ محمد عبد اللہ (4/ذی القعدۃ 1330ھ)
الجواب صحیح کتبہ ابو یوسف محمد عبد المنان غازیپوری مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی (19/ذیالقعدۃ 1330ھ)الجواب صحیح کتبہ محمد عبد القدیر الجواب صحیح والمجیب نجیح کتبہ محمد عبد اللہ المئوی الجواب صحیح والمجیب مصیب کتبہ السید محمد عبد الحفیظ الجواب صحیح لاریب فیہ محمد اسماعیل الجواب صحیح والرای نجیح حررہ تلطف حسین من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین محمد عبد العزیز خلف مولوی عبد السلام مبارکپوری ۔
[1] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث (5718) صحیح مسلم رقم الحدیث(2559)
[2] صحیح البخاری رقم الحدیث(662)
[3] ۔نیل الاوطارشرح متقی الاخبار(214/3)