سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131) عیدین کی نماز کہاں افضل ہے؟

  • 22896
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2657

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عیدین کی نماز صحرا میں افضل ہے یا مسجد میں اور صحرا کی افضلیت صراحتاً بھی کسی حدیث میں آئی ہے یا نہیں اور صحرا کے کیا معنی ہے؟بینواجروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں کہ نماز عید ین مسجد میں افضل ہے یا صحرا میں ؟علماء کا اختلاف ہے بعض فرماتے ہیں کہ مسجد میں افضل ہے۔ اگر مسجد میں گنجائش نہ ہو تب صحرا میں پڑھے ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی مذہب ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ صحرا ہی میں افضل ہے اگر چہ مسجد میں گنجائش ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا یہی مذہب ہے۔ فتح الباری (521/1)مطبوعہ دہلی) میں ہے۔

قال الشافعي:فلو عمر بلد وكان مسجد اهله يسعهم في الاعياد لم ار ان يخرجوا منه فان كان لا يسعهم كرهت الصلاة فيه ولا اعادة

الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة ، وإن كان يسعهم المسجد الجامع ،على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح "

 (امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا : اگر کوئی شہر آباد کیا جائے اس شہر کے باسیوں کی مسجد عید کے لیے ان کو کافی ہوتو میں نہیں سمجھتا کہ وہ (عید پڑھنے کے لیے) اس مسجد سے باہر نکلیں ۔اگر اس مسجد میں ان کی عید یں پڑھنے کی گنجائش نہ ہو تو پھر اس میں نماز عید پڑھنا مکروہ ہے البتہ (اگر وہ پڑھ لیں تو) ان پرنماز کا اعادہ واجب نہ ہو گا)

فتاوی عالمگیری (210/1مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے۔

الخروج الي الجبانة  في  صلاة العيد سنة وان كان يسعهم المسجد الجامع علي هذا عامة المشائخ وهو الصحيح هكذا في المضمرات

(نماز عید کے لیے صحرا کی طرف نکلنا سنت ہے اگرچہ مسجد جامع میں ان کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہو۔عام مشائخ کا یہی موقف ہے اور یہی موقف درست ہے)

حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا مختلف مقامات میں نماز عید ین ادا کرنا پا یا جا تا ہے کبھی دارلشفا میں کبھی محلہ دوس میں ابن ابی الجنوب کے مکان کے پاس اور کبھی حکیم بن عداکے مکان کے صحن میں اور کبھی عبد اللہ بن درہ مزنی کے مکان کے پاس معاویہ اور کثیر بن صلت کے مکانوں کے درمیان میں اور کبھی محمد بن عبد اللہ بن کثیر کے فرودگاہ کے اندر اور سب سے آخر مصلیٰ میں جہاں آخر تک پڑھی ۔صحیحین میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى [1](الحدیث)

(نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن (نماز عید کے لیے) عید گاہ کی طرف نکلتے تھے)

یعنی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   عید ین میں مصلیٰ کو تشریف لے جاتے۔ مصلیٰ کاحال آگے معلوم ہوگا۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

خلاصۃ الوفامولفہ علامہ سمہودی  مدنی  رحمۃ اللہ علیہ (ص187مطبوعہ مصر) میں ہے۔

رحمه الله عن ابن شبة وابن زبالة عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال أول فطر وأضحى صلي  فيه رسول الله صلي الله عليه وسلم للناس بالمدينة بفناء دار حكيم بن العداء عند اصحاب المحامل[2]

یعنی ابن شیبہ اور ابن زبالہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کی ہے کہ اول نماز عیدین جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مدینہ طیبہ میں پڑھائی حکیم بن عداکے مکان کے فنا میں پڑھائی جہاں محمل والے رہتے تھے ۔

اور فنائے مکان اس کشادہ جگہ کا نام ہے جو مکان کے سامنے ہوتی ہے۔ قاموس میں ہے۔

فتاء الدار ككساء ما اتسع من امامها [3]

(فناءکساء کی طرح ہے فنائے مکان اس کشادہ جگہ کو کہتے ہیں جو مکان کے سامنے ہوتی ہے)"منتھی الارب"میں ہے "فناء الدار"یعنی پیش گاہ فراخ سرائے ۔اس کے بعد "خلاصۃالوفاء"میں ہے۔

في رواية للثاني صلى في ذلك المسجد، وهو خلف المجزرة التي بفناء دار العداء بن خالد،

یعنی ابن زبالہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس مسجد میں نماز عید پڑھی جو اس مجزرہ کی پشت پر ہے جو اعداءبن خالد کے مکان کے فنا میں ہے۔

علامہ بن عداء عداء بن خالد کے بیٹے ہیں اور یہ مکان مصلیٰ کے غربی جانب میں ہے علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے۔

"قلت وهي دار ابنه حكيم بن العداء بن بكر بن هوازن ومنزلهم مع مزينة غربي المصلى"

 (میں کہتا ہوں کہ وہ حکیم بن عداء بن بکر بن ہوازن کی بیٹی کا گھر ہے ان کا یہ مکان مزینہ کے ساتھ عید گاہ کی مغربی جانب میں ہے)

"مجزرۃ"اونٹوں کے مذبح کو کہتے ہیں۔ صراح اور منتہی الارب میں ہے"مجزرجائے شترکشتن"(مجزرہ اونٹوں کے مذبح کو کہتے ہیں)

اس کے بعد علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ یہ مسجد جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عیدکی یہ نماز پڑھی تھی شاید وہی بڑی مسجد ہے جو مسجد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نام سے مشہور ہے اور شاید یہ مسجد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف اس وجہ سے منسوب ہےکہ انھوں نے بھی عید کی نماز اس مسجد میں اس وقت میں پڑھائی جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  محصور تھے جیسا کہ ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت کی ہے اس کے بعد علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ یہ امر مستبعد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک نئی جگہ نماز کی ایجاد کریں جہاں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نہ پڑھی ہو۔ علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے۔

فلعله المسجد الكبير المعروف بمسجد علي رضي الله عنه شامي المصلى مما يلي المغرب، متصل بشامي الحديقة المعروفة بالعريضي، لأن سوق المدينة كان هناك، ولعل نسبته إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه لكونه صلي بعد العيد الذي صلاه للناس وعثمان رضي الله عنه محصور كما رواه ابن شيبة ويعبد ان يبتكر علي الصلاة بموضع لم يصل فيه رسول الله صلي الله عليه وسلم[4]

(شاید یہ وہی بڑی مسجد ہے جو مسجد علی شامی مصلیٰ کے نام سے معروف ہے۔جو مغرب کی جانب جو عریضی باغ کے نام سے مشہور ہے کیوں کہ مدینے کا بازاروہیں پرتھا ۔شاید اس مسجد کا نام "مسجد علی"اس وجہ سے ہے کہ اس میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس وقت لوگوں کو نماز عید پڑھائی جب عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (اپنے گھر میں) محصور تھے جیسا کہ ابن شیبہ نے روایت کیاہے لیکن یہ بات بعید ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کسی ایسی جگہ نماز (عید ) پڑھانے کا آغاز کریں جس جگہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نماز نہ پڑھائی ہو)

"خلاصۃ الوفاء "(ص188)میں ہے کہ ابن زبالہ نے بسند خود روایت کی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اول نماز عید حارۃ الدوس(یعنی دوس کے محلے) میں پڑھی جو ابن ابی اجنوب کے مکان کے پاس ہے۔پھر دوسری بار حکیم کے مکان کے فنا میں پڑھی (جس کا ذکر اوپر ہوا) پھر تیسری بار عبد اللہ بن درہ مزنی کے مکان کے پاس پڑھی جو معاویہ اور کثیربن صلت کے مکانوں کے درمیان میں ہے چوتھی باران پتھروں کے پاس پڑھی جو حناطین کے پاس ہیں۔

علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ شاید یہ وہی مسجد ہے جو ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مسجد کہلاتی ہے اور شاید نسبت اس وجہ سے ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے عہد خلافت میں اس مسجد میں نماز عید پڑھی تھی۔ پھر پانچویں بار محمد بن عبداللہ بن کثیر بن صلت کے فرودگاہ کے اندر پڑھی ۔پھر چھٹی بار اس جگہ پڑھی جہاں اب لوگ پڑھتے ہیں جو مسجد المصلےٰ کے نام سے مشہور ہے۔ ابن شیبہ نے ابن باکیہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حارۃالدوس سے پہلے دارالشفاء کے پاس نماز عید پڑھی تھی اور سب سے پیچھے مصلیٰ میں پڑھی جہاں آخر تک پڑھتے رہے ۔علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے۔

مصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العيد. عن هشام بن سعيد بن إبراهيم بن أبي أمية وعن شيخ من أهل السن، أن أول عيد صلاه رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاه في حارة الدوس عند بين أبي الجنوب، ثم صلى العيد الثاني بفناء دار حكيم بن العداء عند دار حفرة داخلاً في البيت الذي بفناء المسجد، ثم صلى العيد الثالث عند دار عبد الله بن درة المازني داخلاً بين الدارين دار معاوية ودار كثير بن الصلت، ثم صلى العيد الرابع عند أحجار عند الحناطين بالمصلى، ثم صلى داخلاً في منزل محمد بن عبد الله بن كثير بن الصلت، ثم صلى حيث صلى الناس اليوم.[5]

(ابن زبالہ ابراہیم بن (ابی) امیہ سے روایت کرتے ہیں وہ ایک دراز عمر ثقہ شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے پہلی نماز عید حارۃ الدوس میں ابن ابی الجنوب کے گھر کے پاس ادا کی۔ پھر دوسری بار حکیم کے گھر کے صحن میں پڑھی جودار جفرہ کے پاس ہے گھر کے اندر وہ گھر جس کے صحن میں مسجد ہے پھر تیسری بار عبد اللہ بن درہ مزنی کے مکان کے قریب ادا کی جو معاویہ اور کثیر بن صلت کے مکانوں کے درمیان ہے پھر چوتھی بار ان پتھروں کے پاس پڑھی جو عیدگاہ میں حناطین کے پاس ہیں پھر محمد بن عبد اللہ بن کثیر بن الصلت کے مکان کے اندر ادا کی۔ پھر اس جگہ پڑھی جہاں لوگ اب پڑھتے ہیں میں کہتا ہوں کہ ابن ابی الجنوب کا مکان وادی بطحان کی مغربی جانب میں تھا چنانچہ اس روایت کے مطابق پہلی عید گاہ وہاں تھی ۔دوسری عیدگاہ سے متعلق کلام پہلے گزر چکا ہے۔ تیسری عید گاہ تو وہ ابن شہاب کے قول کے مطابق جیسا کہ ابن شیبہ کا بھی بیان ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے آل درہ کے مکان کے پاس نماز عید پڑھی وہ آل درہ جو مزینہ کا ایک قبیلہ ہے مزینہ کا گھر عید گاہ کی مغربی جانب میں وادی بطحان کے مشرقی کنارے کی طرف مصلیٰ کے قبلے کی جانب تھا۔ کثیر بن صلت کا مکان عید گاہ کے سامنے ہے یعنی جس پر عمل بر قرار رہا اور یہ وہ مسجد ہے جس کا آگے ذکر آرہا ہے معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا گھر کثیر کے گھر کے سامنے تھا یا اس کی مغربی جانب یا اس کی شرقی جانب پہلی بات زیادہ صحیح ہے اس دلیل کی بنا پر جو آگے آئے گی جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے قبا جانے کا ذکر ہے اور اس میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   عید گاہ کے پاس سے گزر فرماتے تھے پھر مذکورہ بالا دو گھروں کے درمیان گلی کی جگہ پر چلتے تھے رہی چوتھی عید گاہ اور اس کے بعد والی عید گاہ ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں جو لوگوں کی آج کی عیدگاہ کے قریب ہیں اور بطور خاص چوتھی عید گاہ شاید یہ وہی مسجد ہے جو عید گاہ کی شمالی جانب میں ہے آج یہ مغرب کی جانب مائل معروف باغیچہ عریضی کے وسط میں قبہ عین الازرق کے ساتھ متصل ہے آج کل یہ مسجد ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نام سے معروف ہے۔ شاید اس لیے کہ انھوں نے اپنے دور خلافت میں یہاں نماز (عید ) ادا کی تھی۔اور اس کا قول کہ پھر وہاں پر نماز (عید) پڑھی جہاں آج لوگ پڑھتے ہیں یعنی اس مسجد میں جو آج مسجد المصلی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ روایت اسی مفہوم میں ہے جس کو ابن شیبہ نے ابن باکیہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے جکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے دارالشفاء کے پاس عید کی نماز ادا کی۔ پھر حارۃ الدوس میں پڑھی پھر المصلیٰ میں پڑھی پھر اس کے بعد اسی جگہ نماز عید ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو فوت لر لیا )

پھر (صفحہ :189)میں علامہ سمہودی فرماتے کہ مطری نے کہا کہ ان مسجدوں میں سے جن کو ابن زبالہ نماز عید کے لیے ذکر کیا ہے اب صرف تین مسجد یں مشہور ہیں۔

(1)مسجد المصلیٰ جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے سب سے پیچھے عصر کی نماز پڑھی اور آخر تک اسی میں پڑھتے رہے۔

2۔مسجد حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (3)مسجد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ۔

علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے ۔

قال المطري ولا يعرف من المساجد التي ذكر يعني ابن زبالة لصلاة العيد غير المسجد الذي يصلى فيه اليوم ومسجد شماليه وسط الحديقة المعروفة بالعريضي يعرف بمسجد أبي بكر ومسجد كبير شمالي الحديقة متصل بهم يسمى مسجد على انتهى[6]

(مطری  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ عید کی نماز کے لیے ابن زبالہ کی ذکر کردہ مساجد میں سے ان مساجد کے علاوہ معروف نہیں ہیں جس میں آج نماز (عید ادا کی جاتی ہے اور وہ شمالی مسجد جو معروف باغیچے عریضی کے وسط میں ہے وہ مسجد ابی بکر کے نام سے معروف ہے اور ایک بڑی مسجد ہے جو باغیچے کی شمالی جانب اس کے ساتھ متصل جس کا نام مسجد علی ہے)

بخاری شریف میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عید میں اس علم کے پاس تشریف لا کر عید کی نماز پڑھی جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے بخاری شریف کی عبارت یہ ہے ۔

قال سمعت ابن عباس قيل له أشهدت العيد مع النبي صلى الله عليه وسلم قال نعم ولولا مكاني من الصغر ما شهدته حتى أتى العلم الذي عند دار كثير بن  الصلت [7]

(راوی کا) بیان ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس وقت سنا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ نماز عید میں موجود تھے؟انھوں نے جواب دیا ہاں!اگر میں چھوٹی عمر کا بچہ نہ ہوتا تو میں ایسے موقعے پر(عورتوں کی جانب ) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ نہ جا سکتا ۔ یہاں تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس ہے)

خلاصہ الوفا کے صفحہ (188)اور فتح الباری (520/1)میں ابن سعد سے منقول ہے کہ کثیر بن صلت کا مکان بطن وادی بطحان پر جو وسط مدینہ میں ہے مطل تھا خلاصۃ الوفاء کی عبارت یہ ہے ۔

"ودار كثير بن صلت قبلة مصلي العيد كما قال ابن سعد يعني الذي استقر عليه الامر"

 (کثیر بن صلت کا مکان عید گاہ کے قبلے کی جانب تھا جیسا کہ ابن سعد نے کہا ہے یعنی جس پر عمل بر قرار رہا )فتح الباری کی عبارت یہ ہے۔

" قَالَ بن سَعْدٍ كَانَتْ دَارُ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ قِبْلَةَ الْمُصَلَّى فِي الْعِيدَيْنِ وَهِيَ تُطِلُّ عَلَى بَطْنِ بَطَحَانِ الْوَادِي الَّذِي فِي وَسَطِ الْمَدِينَةِ"

 (ابن سعد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ کثیر بن صلت کا گھر مصلیٰ عید ین کے قبلے کی جانب ہے جو بطن وادی بطحان پرجو وسط مدینہ میں ہے مطل تھا)

خلاصۃ الوفا میں ہے کہ عدااور ابن درہ مزنی دونوں کے مکان مصلیٰ کے غربی جانب میں تھے اور ابن ابی الجنوب کا مکان وادی بطحان کے غربی جانب میں تھا خلاصۃ الوفاء کی عبارت اوپر نقل ہوچکی اور اس باب میں صحرا کی افضلیت کی صراحت میں نے کسی حدیث میں نہیں پائی اور صحرا کے کئی معنی ہیں قاموس میں ہے ۔

اسم سبح محال بالكوفة والارض المستوبة في غلظ ولين دون القف والفضاء الواسع لانبات به[8]

(صحرا)کوفہ میں سات مقامات کا نام ہے اور یہ اس زمین کو کہتے ہیں جو سخت پتھروں کے سوا سختی اور نرمی میں برابر ہو اور وہ فراغ فضا اور کشادگی جو بے آب و گیاہو)

"منتھی الارب" میں ہے"

"صحرا نام ہفت جائے ست درکوفہ و دشت  ہموار و کشادگی فراخ بے گیاہ"[9]اھ

(صحرا کوفہ میں سات جگہوں کا نام ہے اور یہ ہموارزمین اوربے آب وگیاہ فراخ کشادگی کو کہتے ہیں)

نیز "منتھی الارب"میں ہے"دشت بالفتح بیابان [10](دشت دال کی زبر کے ساتھ بیاباں کو کہتے ہیں)"غیاث اللغات" میں ہے۔

"بیابان بفتح از کشف و بعضے محققین نوشتہ اندکہ بیابان بکسر اول باشدزیرا کہ دراصل بے آبان بود بمعنی بے آب شوندہ یعنی صحرائے بے آب چوں بالف ممدودہ آب درحقیقت دوالف است لفظ دیگر مرکب شود الف اول ساقط گردد چنا نکہ سیماب و گلاب والف و نون دردر آخر برائے فاعلیت است"

(کشف میں ہے کہ بیابان بے کی زبر کے ساتھ ہے بعض محققین نے لکھا ہے کہ بیابان پہلے لفظ (بائےاول) کی زیر کے ساتھ ہے کیوں کہ یہ لفظ اصل میں"بے آبان" تھا جس کا معنی ہے بے آب ہونا یعنی صحرائے بے آب لفظ آب میں الف ممدودہ کے ساتھ درحقیقت دوالف ہیں جب اس کے ساتھ دوسرا لفظ مرکب ہوا تو پہلا الف ساقط ہوگیا جیسے سیماب اور گلاب ہے۔ بیابان کے آخر میں"ان"فاعلیت کے لیے ہیں)

ان عبارات منقولہ کتب لغت سے ہویداہے کہ عرب کی زبان میں صحرا علاوہ ان سات جگہوں کے جو کوفہ میں ہیں اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں پانی اور گھاس نہ ہو یعنی صحرا کے مفہوم میں پانی اور گھاس کانہ ہونا بھی معتبرہے اور مصلیٰ شریف اور وہ جگہیں جن میں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عید کی نماز یں پڑھی تھیں ان پر صحرا بمعنی مذکور کا صادق آنا مشکل ہے۔

بہر کیف کتب مذکورہ بالا سے اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ عیدگاہ یعنی جہاں عید کی نماز پڑھی جائے ایسی کشادہ جگہ ہونی چاہیے جس میں عیدگاہ کے لیے جانے والوں کی گنجائش ہو جائے خواہ صحرا ہو یا مسجد یا ان کے سوا اور کوئی جگہ ہو۔ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا مسجد نبوی میں نماز عید ین پڑھنا سب سے آخر میں مصلیٰ شریف میں پڑھنا اور پھر اسی میں پڑھتے رہ جانا اس کی وجہ  واللہ اعلم یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسجد نبوی میں اس وقت اتنی گنجائش نہ تھی کہ سب لوگ اس میں آسکیں اور دوسری جگہوں میں اس قدر گنجائش تھی پھر جیسے جیسے حاضرین کی کثرت ہوتی گئی جگہیں بدلتی گئیں ۔ سب سے آخر میں مصلیٰ کی جگہ اس لیے تجویز ہوئی کہ وہ بہت کشادہ جگہ تھی اور اسی وجہ سے پھر اس کی تبدیلی کی ضرورت نہ ہوئی۔

اس کی تائید اس سے بخوبی ہو جاتی ہے کہ مکہ معظمہ میں نماز عید مسجد ہی میں ہوتی آئی ہے کبھی صحرا میں ثابت نہیں ہے تو اگر نماز عید کے لیے صحرا ضروری یا افضل ہوتا تو ضرور حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے عہد شریف میں بعدفتح مکہ کے مکہ والوں پر صحرا میں نماز عید پڑھنے کا حکم جاری فرماتے ۔جس طرح اور احکام آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے وہاں جاری فرمائے حالانکہ کہیں سے اس کا کچھ ثبوت معلوم نہیں ہوتا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے مکہ والوں پر ایسا حکم کبھی جاری فرمایا ہو۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری(521/1)میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیاہے کہ مکہ معظمہ میں جو نماز عید مسجد میں ہوتی ہے اس کا سبب بھی مسجد کی کشادگی ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے اس قول کا مقتضایہ ہے کہ مسجد یا صحرا میں نماز عید پڑھنے کی علت کا مدارتنگی اور کشادگی ہے نفس صحرا کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔

یعنی اگر مسجد کشادہ ہے تو مسجد ہی میں پڑنی چاہیے اور مسجد تنگ ہے تو صحرا اور جو جگہ کشادہ ہو اس میں پڑھنی چاہیے کسی جگہ کی خصوصیت کو اس میں کچھ دخل نہیں فتح الباری کی عبارت یہ ہے۔

قَالَ الشَّافِعِيّ فِي الأُمّ : بَلَغَنَا أَنَّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُج فِي الْعِيدَيْنِ إِلَى الْمُصَلَّى بِالْمَدِينَةِ وَهَكَذَا مَنْ بَعْده إِلا مِنْ عُذْر مَطَر وَنَحْوه , وَكَذَا عَامَّة أَهْل الْبُلْدَان إِلا أَهْل مَكَّة . اِنْتَهَى .[11]

(امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ بلا شبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   عیدین (کی نماز ادا کرنے) کے لیے مدینے کی عیدگاہ کی طرف جایا کرتے تھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے بعد والے لوگوں (خلفاوغیرہ) کا یہی معمول تھا پھر انھوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ بلاشبہ اس (اہل مکہ کا مسجد میں عید پڑھنے ) کا سبب یہ ہے کہ مسجد حرام بہت وسیع ہے اور اطراف مکہ تنگ ہیں نیز ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شہر آباد کیا جائے اور اہل شہر کی مسجد عید ین کی نماز پڑھنے کی ان کو گنجائش فراہم کرتی ہوتو میں نہیں سمجھتا کہ وہ شہر سے باہر نکلیں اور اگر اس مسجد میں اہل شہر کے نماز عید ادا کرنے کی گنجائش نہ ہو تو پھر شہر کے اندر مسجد میں نماز اداکرنا مکروہ ہے اگر پڑھ لی جائے تو اس کا اعادہ لازم نہیں آئے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے اس قول کا مقتضایہ ہے کہ مسجد یا صحرا میں نماز عید ادا کرنے کی علت کا مدارتنگی اور کشادگی ہے نفس صحرا کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے کیوں کہ اس کا مطلوب اجتماع کا حصول ہے اگر مسجد سے یہ مطلب حاصل ہوجائے تو یہ اولیٰ اور بہتر ہے اور پھر یہ کہ مسجد ویسے بھی دوسری جگہوں کے مقابلے میں افضل ہے)

اور یہ خیال کہ جب سب سے آخر میں مصلیٰ کی تجویز ہوئی تو اور جگہیں منسوخ ہوگئیں صحیح نہیں ہے۔(کتبہ: محمد عبد اللہ (مہر مدرسہ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (913)صحیح مسلم رقم الحدیث(889)

[2] ۔دیکھیں اخبارالمدینہ لابن شبہ النمیری (134/1)

[3] ۔القاموس المحیط(ص1074)

[4] ۔خلاصۃ الوفاء(282/2)

[5] ۔خلاصۃالوفاء(284/2)

[6] ۔خلاصۃ الوفاء(286/2)

[7] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (934)

[8] ۔القاموس المحیط (ص9)

[9] ۔منتھی الارب (224/2)

[10] ۔منتھی الارب(29/2)

[11] ۔فتح الباری (450/2)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:280

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ