سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) ايک جگہ بجماعت نماز عیدین ادا کرنا

  • 22895
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 547

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جماعت کے لوگ مع امام و سردارانِ جماعت آپس میں اتفاق کے ساتھ ایک عید گاہ مقرر کر کے بہت روز سے نمازِ عیدین بجماعت ادا کرتے رہے۔ اسی اثناء میں عید گاہ کے متصل رہنے والے، یعنی متولی اور جو جو شخص عید گاہ کی نگرانی و حفاظت برابر کرتے تھے، ان سے کوئی افعال شنیعہ سرزد ہوا، اس لیے عام مسلمانوں کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ جس کے ساتھ شرعاً سلام و مصافحہ وغیرہ بر تاؤ اسلام میں جائز نہیں، اگر وہاں ہم لوگ نمازِ عیدین پڑھنے کے لیے جائیں گے، اگر خاطراً اس کے ساتھ سلام وغیرہ کریں گے تو خداوند کریم کے نزدیک گنہگار ہوں گے، ورنہ خدانخواستہ کوئی فساد پیدا ہونے کی امید ہے۔ اس لیے ان لوگوں نے مع اپنے امام و سرداران سب کے مشورہ و اتفاق کے ساتھ دوسری جگہ پسند کر کے دین کی رونق و ترقی کے واسطے عیدگاہ مقرر کر کے نماز ادا کی ہے۔ آیا یہ ازروئے شرع شریف جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازِ عیدین میں تفریقِ جماعت نہ کریں، بلکہ سب لوگ ایک ساتھ مل کر پڑھیں۔ تفریقِ جماعت کی وجہ جو مندرجہ سوال ہے، وہ تفریقِ جماعت کی علت نہیں ہوسکتی۔ تفریقِ جماعت میں دین کی کونسی رونق و ترقی ہوسکتی ہے؟ ہاں جن لوگوں سے سلام و مصافحہ وغیرہ فی الواقع شرعاً ناجائز ہوں، ان سے سلام و مصافحہ وغیرہ ترک کر دیں، تاکہ اس سے ان لوگوں کو تنبہ ہو۔

عن أبي ھریرة رضی اللہ عنہ  أن رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  قال: (( الصوم یوم تصومون، والفطر یوم تفطرون، والأضحی یوم تضحون )) [1]

فسر بعض أھل العلم ھذا الحدیث فقال: ’’إنما معنی ھذا الحدیث أن الصوم والفطر مع الجماعة وعظم الناس‘‘ (ترمذي: ۱/ ۸۸) و  الله تعالیٰ أعلم

[ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: روزہ اس دن ہے جب تم روزہ رکھتے ہو، عید الفطر اس دن ہے، جس دن تم (رمضان مکمل کر کے) روزہ چھوڑتے ہو اور عید الاضحی اس دن ہے، جس دن تم قربانی کرتے ہو۔

بعض اہلِ علم نے اس حدیث کا مفہوم یوں بیان کیا ہے: کہ روزہ رکھنا اور روزہ چھوڑنا جماعت کے ساتھ اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ہونا چاہیے]

کتبہ: محمد عبد   الله (۱۸؍محرم ۱۳۲۷ھ)


[1]              سنن الترمذي، رقم الحدیث (۶۹۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۶۶۰)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:280

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ