السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عیدگاہ بمشورہ چند مواضع اہلِ حدیث و احناف کے بنائی گئی اور احناف نے وعدہ واثق کیا کہ ہم لوگ اسی مسجد میں عیدین کی نماز ادا کریں گے۔ جب عید گاہ طیار ہوئی تو احناف نے نماز پڑھنے سے انکار کیا کہ ہم لوگوں کی نماز اہلِ حدیث کے پیچھے نہیں ہوگی تو اہلِ حدیث نے جواب دیا کہ ہمارے پیچھے نماز نہیں ہوگی تو آپ اپنے گروہ سے جس شخص کو امام قرار دیجیے، اس کے پیچھے ہم لوگ بھی نماز پڑھیں گے۔
الغرض صاحبان احناف نے انکار کیا اور اس کی ضد سے ایک عید گاہ اپنی بستی سے باہر نکل کر آدھ میل کے فاصلے پر پہلی عید گاہ سے بنانا شروع کیا، تو ایک عیدگاہ کے مقابلے میں دوسری عیدگاہ ضد سے بنانا جائز ہے یا نہیں اور جو شخص وعدہ کر کے اپنے اقرار سے لوٹ جائے تو اس کے حق میں شارع نے کیا حکم کیا ہے اور اہلِ حدیث کے پیچھے مقلدوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو مسجد بلا عذر شرعی ضد اور نفسانیت سے طیار کرائی جائے تو ایسی مسجد کا بنانا جائز نہیں، بلکہ مفسرین نے اس کو مسجد ضرار میں داخل کیا ہے۔ تفسیر مدارک و کشاف وغیرہ میں ہے:
’’قیل: کل مسجد بني مباھاۃ أو ریاء أو سمعۃ أو لغرض سوی ابتغاء وجہ الله فھو لاحق بمسجد الضرار‘‘ انتھی (نقلا عن فتاویٰ المولوي عبد الحی: ۱/ ۱۵۶) [1]
[کہا گیا ہے کہ ہر وہ مسجد جو فخر کرنے یا ریا کاری یا سنانے یا رضاے الٰہی کے سوا کسی دوسری غرض کے لیے بنائی جائے تو وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے]
وعدہ خلافی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علامتِ نفاق فرمایا ہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۱۷) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(( آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان )) [2]
[منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو خیانت کرے]
ہر مسلمان کی نماز ہر مسلمان کے پیچھے بلاشبہ جائز ہے، اس میں کسی کی خصوصیت نہیں ہے اور عدمِ جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ و الله أعلم۔
حررہ راجي رحمۃ اللّٰه : أبو الہدی محمد سلامت اللّٰه ، عفي عنہ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
واضح ہو کہ یہ سوال متضمن تین امر کو ہے۔ پہلے امر کی نسبت یہ گزارش ہے کہ بلاوجہ شرعی جو لوگ باہمی ضد و شقاق کی و جہ سے دوسری مسجد (عید گاہ) بنانا چاہیں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ڈالیں، وہ لوگ سورت توبہ کی آیت:﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ کو پیشِ نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس آیت کے مصداق ہوجائیں اور وہ مسجد حکم میں مسجد ضرار کے ہو جائے، جس کی شان میں﴿لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَداً﴾ وارد ہے۔ دوسرے امر کی نسبت گزارش ہے کہ تعمیلِ معاہدہ و ایفائے وعدہ واجب ہے۔
قال الله تعالیٰ:﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ﴾ [المائدۃ: ۱]
[اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو]
وقال أیضاً:﴿وَ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْؤلًا﴾ [الإسراء: ۳۴]
[اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا]
پس جو شخص اس حکم کی مخالفت کرے، اس میں ایک شمہ نفاق کا ہے، جس سے بچنا واجب و لازم ہے۔
تیسرے امر کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ اہلِ حدیث سچے اور خاصے مسلمان ہیں۔ ان کے پیچھے نماز جائز ہونے میں کیا کلام ہے؟ نماز تو ہر مسلمان کے پیچھے جائز و درست ہے، چہ جائیکہ ایسے لوگ؟ لقولہ علیہ السلام: ((الصلاۃ واجبۃ علیکم، خلف کل مسلم، برا کان أو فاجرا )) (أبو داود، کذا في المنتقی) [3]
[نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: نماز تم پر واجب ہے، ہر مسلمان کے پیچھے، خواہ وہ نیک ہو یا فاجر]
شرح عقائد نسفی (جس میں اہلِ سنت و جماعت کے عقائد کا بیان ہے) [4]میں ہے:
(( صلوا خلف کل بر وفاجر )) [5] [ہر نیک اور برے شخص کے پیچھے نماز پڑھو]
اس کے حاشیہ میں ہے: ’’خلافا للشیعۃ‘‘ یعنی ہر ایک نیک و بد مسلمان کے پیچھے نماز پڑھو، بخلاف رافضیوں کے کہ وہ برے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، بلکہ امام کا مجتہد یا معصوم ہونا شرط بتاتے ہیں، پس اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ سنت کے یہاں یہ قید نہیں ہے۔ و الله أعلم۔ کتبہ: أبو الفیاض محمد عبدالقادر، عفي عنہ۔
[1] الکشاف للزمخشري (۲/ ۳۰۱) مدارک التنزیل للنسفي (۲/ ۲۰۴)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۹)
[3] یہ حدیث ضعیف ہے، اس کی تخرج گزر چکی ہے۔
[4] شرح عقائد نسفی میں اشاعرہ اور ما تریدیہ کے عقائد کا بیان ہے، لیکن غلط فہمی کی بنا پر عموماً اس کتاب میں مندرجہ تمام عقائد کو اہلِ سنت کے عقائد سمجھ لیا جاتا ہے۔ فلیتنبہ!
[5] شرح العقائد النسفیۃ (ص: ۱۶۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب