سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) عیدین کے مسائل

  • 22893
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 622

سوال

(128) عیدین کے مسائل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جدید عید گاہ بنانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر جواب نفی ہے تو اس کے بنانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ ایک صاحب نے یہ کہا ہے کہ جدید عید گاہ شرعاً جائز ہے۔ اس کی رائے موافق کتاب و سنت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  نہ یہ جدید عیدگاہ شرعاً جائز ہے نہ اس کے جواز کی رائے موافق کتاب و سنت ہے، اس لیے کہ عید گاہ میں  مسلمانوں کا اجتماع شرعاً ایک امر ضروری قرار پا چکا ہے، تاکہ مسلمانوں کی شوکت و کثرت ظاہر ہو، اس لیے حکم ہے کہ عید گاہ میں کل مسلمان، مرد ہوں یا عورت، حاضر ہوں، حتی کہ پردہ نشین اور حیض والی عورتیں بھی حاضر ہوں، گو حیض والی عورتیں نماز میں شامل نہ ہوں، مگر حاضر ضرور ہوں۔ الغرض عید گاہ میں عامہ مسلمین کا اجتماع شرعاً ایک امر ضروری قرار پا چکا ہے۔ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدِ سعادت میں کل مسلمان ایک ہی عید گاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے لڑکے بھی حاضر ہوا کرتے تھے اور تفریق (یعنی دو عید گاہ ہونے) کی صورت میں یہ امر ضروری (مسلمانوں کا اجتماع) فوت ہوجاتا ہے، لہٰذا نہ یہ جدید عیدگاہ شرعاً جائز ہے نہ اس کے جواز کی رائے موافق کتاب و سنت ہے۔ ترمذی (۱/ ۹۲ مطبوعہ دہلی) میں ہے:

عن أبي ھریرۃ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  قال: (( الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون، والأضحیٰ یوم تضحون)) [1] قال أبو عیسیٰ: ھذا حدیث حسن غریب، وفسر بعض أھل العلم ھذا الحدیث فقال: إنما معنیٰ ھذا أن الصوم والفطر مع الجماعة وعظم الناس۔ اھ۔

[سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’روزہ اس دن ہے جس دن تم (رمضان کا چاند دیکھ کر تمام لوگ) روزہ رکھتے ہو، عید الفطر اس دن ہے، جس دن تم (رمضان مکمل کر کے) روزہ چھوڑتے ہو اور عید الاضحی اس دن ہے، جس دن تم قربانی کرتے ہو۔‘‘

امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور روزہ چھوڑنے کا عمل جماعت اور لوگوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ مل کر ہونا چاہیے]

’’حجۃ الله البالغة‘‘ (ص: ۲۲۲ مطبوعہ بریلی) میں ہے:

’’وضم معہ مقصدا آخر من مقاصد الشریعۃ، وھو أن کل ملۃ لا بد لھا من عرصۃ یجتمع فیھا أھلھا، لینظر شوکتھم، وتعلم کثرتھم، ولذلک استحب خروج الجمیع حتی الصبیان والنساء ذوات الخدور، والحیض، ویعتزلن المصلیٰ، ویشہدن دعوۃ المسلمین‘‘ اھ۔  و  الله تعالیٰ بالصواب

[اس کے ساتھ شارع نے من جملہ مقاصدِ شرعیہ کے ایک اور مقصد کو بھی شامل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ملت کے لیے ایک دن ایسا ضرور ہونا چاہیے، جس میں اس ملت کے لوگ اپنے اظہارِ شوکت اور مجمع کی کثرت ظاہر کرنے کی غرض سے باہر نکل کر جمع ہوں۔ لہٰذا عید کے لیے سب کا جانا مستحب ہے۔ حتی کہ بچوں، عورتوں، پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کا نکلنا بھی مستحب بنایا گیا ہے، لیکن حائضہ عورتیں عید گاہ سے علاحدہ ہو کر ایک طرف بیٹھ جائیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوجائیں]

کتبہ: محمد عبد  الله (۸؍رمضان المبارک ۱۳۲۶ھ)۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان الغازی فوري


[1]              سنن الترمذي، رقم الحدیث (۸۹۷)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:276

محدث فتویٰ

تبصرے