السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نبی کریم کی تاریخ ولادت کیا ہے اور کیا عید میلاد النبی منانا صحیح ہے۔؟ دلائل کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نبی کریمﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مؤرخین کے ہاں متعدد اقوا ل پائے جاتے ہیں، اور متعین طور پر کوئی ایک تاریخ ثابت نہیں ہے،لیکن راجح قول کے مطابق آپ نو[۹] ربیع الأول بروز سوموار بوقت صبح پیدا ہوئے۔ معروف مصری ماہر فلکیات محمود پاشا فلکی اور معروف ہندوستانی سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارکپوری دونوں نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ ( نور اليقين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 9 )، وينظر: " الرحيق المختوم " ص 41) باقی رہا یہ مسئلہ کہ کیا عید میلاد النبی منانا جائز ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے عید میلاد النبی کے نام سے خوشی منانا یا کسی جشن کا اہتمام کرنا ایک بدعت اور بے اصل کام ہے۔ کیونکہ یہ نبی کریمﷺ ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین عظام سمیت کسی بھی محدث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ عید منانا اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا تو نبی اکرمﷺ ضرور اسے مناتے اور اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کا حکم فرماتے۔ اگر آپﷺ نے یہ کام خود کیا ہوتا یا امت کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہوتا تو یہ حکم ضرور محفوظ ہوتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ إِنَّا نَحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون ‘‘ --الحجر:9 ’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ دین اسلام میں عید میلاد منانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اسے ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقریب کے حصول کا ذریعہ قرار دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک تک رسائی کا ایک معین طریقہ مقرر فرما دیا ہے اور وہ معین طریقہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے، لہٰذا ہم بندے از خود کوئی ایسا طریقہ کیسے ایجاد کر سکتے ہیں؟ جو ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچا دے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہے کہ اس کے دین میں ہم اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ایجاد کر دیں جس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب بھی لازم آتی ہے: ’’ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي‘‘--المائدة:3 ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں۔‘‘ گزارش یہ ہے کہ اگر عید میلاد منانے کا تعلق اس کامل دین سے ہے، تو رسول اللہﷺ کی وفات سے پہلے اسے موجودہونا چاہیے اور اگر اس دین کامل میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا تعلق دین سے ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ‘‘ ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ہے۔‘‘ اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ اس کا تعلق تو کمال دین سے ہے لیکن یہ چیز رسول اللہﷺ کے بعد پیدا ہوئی ہے تو اس کی یہ بات اس آیت کریمہ کی تکذیب پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عید میلاد منانے والے لوگ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم، آپﷺ سے محبت کا اظہار اور عید میلاد کے ذریعے سے آپﷺ سے دلی وابستگی کے جذبات کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور یہ تمام امور عبادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ نبیﷺ سے محبت عبادت ہے بلکہ اس وقت تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک نبیﷺ کی ذات گرامی اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے والدین اور دیگر سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ نبیﷺ کی تعظیم بھی عبادت ہے، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کی محبت کے لیے جذبات کو ابھارنے کا تعلق بھی دین سے ہے کیونکہ اس طرح آپ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف میلان ہوتا ہے۔ یوں عید میلاد بھی تقرب الٰہی کے حصول اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عبادت ہے اور جب یہ عبادت ہے تو کسی کو ہرگز ایسی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جس کا دین سے تعلق نہ ہو، یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس کا حکم نہ دیا ہو جیسا کہ عید میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جب اس کا دین اسلام میں کوئی تصور نہیں، تو معلوم ہوا کہ اس کا منانا بدعت اور حرام ہے۔ پھر ہم یہ بھی سنتے رہتے ہیں کہ عید میلاد کی محفلوں میں ایسے بڑے بڑے منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے جنہیں شرعی، حسی یا عقلی طور پر جائزقرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان محفلوں میں گاگا کر ایسی نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن میں نبیﷺ کے بارے میں بہت غلو سے کام لیا گیا ہوتا ہے، حتیٰ کہ نعوذ باللہ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے بھی بڑا ثابت کیا جاتا ہے۔ عید میلاد منانے والوں کی اس بے وقوفی کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں کہ ان محفلوں میں ولادت کا قصہ بیان کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ پھر مصطفی کی ولادت ہوگئی تو اس لمحے سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس محفل میں رسول اللہﷺ کی روح بھی تشریف لے آئی ہے اور ہم اس کے احترام میں کھڑے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ بے وقوفی کی بات ہے اور پھر یہ ادب نہیں ہے کہ اس لمحے سب لوگ کھڑے ہوں، آپ تو اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں تمام لوگوں کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت تھی اور وہ ہم سے کہیں بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم بجا لانے والے تھے، ان کا رسول اللہﷺ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا معمول نہ تھا کیونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ آپﷺ اسے ناپسند فرماتے ہیں۔(جامع الترمذی، الادب، باب ماجاء فی کراہیۃ قیام الرجل للرجل، حدیث: ۲۷۵۵، ۲۷۵۴۔) اگر آپﷺ اپنی حیات طیبہ میں اسے ناپسند فرماتے تھے تو آپﷺ کی وفات کے بعد ان محفلوں میں کھڑا ہونا کسی صورت میں پسندیدہ ہوسکتا ہے؟ عید میلاد منانے کی اس بدعت کا رواج پہلی تین افضل صدیوں کے بعد شروع ہوا ہے اوراگردیکھاجائے تو بلاشبہ ان محفلوں میں اس طرح کے منکر امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس سے دین میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ ان محفلوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط بھی ہوتا ہے اور دیگر کئی غلط کاموں کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے، لہٰذا انہیں قطعاً جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نوٹ: محدث فتویٰ پر اسی مسئلہ پر پہلے سے موجود اس فتویٰ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ عید میلاد النبی مناناوالله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |