السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کر وعظ عام کرتے ہیں اور تا عصر اِتمامِ وعظ کر کے صلاۃ العصر ادا کرتے ہیں۔ جو شخص اس وعظ میں شامل نہ ہو اور بعد ادائے صلاۃ الجمعہ چلا جائے تو اس کو زجر کرتے ہیں اور استماعِ وعظ پر اصرار فرماتے ہیں۔ کیا یہ طریقِ زمان میمنت توامان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یا زمانِ صحابہ رضی اللہ عنہم یا خیر القرون میں پایا گیا ہے یا نہیں؟ احادیثِ نبویہ سے تو اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف خطبے میں تذکیرِ عام فرماتے تھے نہ کہ بعد ادائے صلاۃ الجمعہ اور خلفاے اربعہ سے بھی وعظ بعد صلاۃ الجمعہ ثابت نہیں ہو سکا اور صراحتاً نصِ قرآن مجید و فرقانِ حمید بھی اس طریق کے برخلاف حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلوٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ...﴿١٠﴾... سورة الجمعة
عند وجودِ شرط جزا کا وجود واجب ہے، خاص کر﴿فَانْتَشِرُوْا﴾ بصیغۂ امر مستلزمِ وجوب ہے، جیسا کہ
﴿إِذا نودِىَ لِلصَّلوٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ... ﴿٩﴾... سورة الجمعة
میں﴿فَاسْعَوْا﴾ مثبتِ امر وجوب ہے۔ اسی طرح آیتِ وضو:
﴿إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم... ﴿٦﴾... سورة المائدة
میں فَاغْسِلُوا حکم وجوبی ہے۔اسی طرح کے نظائر اور بھی ہزارہا ہیں۔پس بعد تعمق نظر فی الکتاب والسنہ وعظ بعد صلاۃ الجمعہ بدعت معلوم ہوتا ہے،بلکہ بمتقضائے نص صریح واجب الترک ہے۔حضرات محققین اپنے اپنے عندیہ سے جلد مسرور فرمائیں۔ابو الحاج(ع۔ق ہمایونی) ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر(16جنوری 26اپریل 1912ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں قرآن مجید پڑھتے اور تذکیر فرماتے، یعنی وعظ کہتے۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے: ’’کانت للنبي صلی اللہ علیہ وسلم خطبتان یجلس بینھما، یقرأ القرآن ویذکر الناس‘‘[1]الحدیث۔
میری نظر سے یہ کہیں نہیں گزرا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جمعہ کے بعد وعظ کہتے اور لوگوں کو اس کے لیے ٹھہراتے تھے۔ صیغۂ امر آیتِ کریمہ﴿فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا﴾ الجمعة: ١٠] میں ویسا ہی ہے، جیسا کہ آیت کریمہ﴿وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا﴾ [المائدۃ: ﴿٢﴾] میں ہے، یعنی اباحت کے لیے، وجوب کے لیے نہیں ہے۔ پس بعد نمازِ جمعہ ہر شخص کو مباح ہے کہ چلا جائے یا ٹھہرا رہے، نہ جانا ہی واجب نہ ٹھہر جانا ہی واجب اور نہ کوئی ان میں سے ممنوع۔ وعظ و تذکیر بعد نمازِ جمعہ کا وہی حکم ہے، جو اور وقتوں کا ہے تو جس طرح اور وقتوں میں وعظ و تذکیر جائز ہے، اسی طرح بعد نمازِ جمعہ بھی جائز ہے تو اگر کوئی شخص بعد نمازِ جمعہ محض جواز کے خیال سے وعظ کہے اور دوسرے لوگ وعظ سننے کے لیے ٹھہر جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جو شخص اس وعظ میں شامل نہ ہو اور بعد نمازِ جمعہ چلا جائے، اس کو زجر کرنا البتہ بے وجہ اور ناجائز ہے۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ، از دھلي
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب