سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) کیا خطبہ جمعہ میں وعظ کرنا بدعت ہے؟

  • 22886
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2088

سوال

(121) کیا خطبہ جمعہ میں وعظ کرنا بدعت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ما قولکم أیھا العلماء الکرام في أن الوعظ في الخطبة یوم الجمعة ھل یجوز أم لا؟ وھل قول من قال: إن الوعظ في الخطبة یوم الجمعة بدعة محضة مخالف للسنة النبویة، ولیس ھو مما ذکر جوازہ في کتب الفقه۔ صحیح أم لا؟

[علماے کرام کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے کہ جمعے کے دن خطبے میں وعظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا کسی شخص کا یہ کہنا کہ جمعے کے دن خطبے میں وعظ کرنا محض بدعت، سنت نبویہ کے مخالف اور فقہ کی کتابوں میں اس کے جواز کا کوئی ذکر نہیں ہے، درست ہے یا نہیں؟]

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 فقد سألت۔ رحمک  اللّٰه ۔ عن الوعظ في الخطبة ھل یجوز أم لا؟ وھل قول من قال: إن الوعظ في الخطبة یوم الجمعة بدعة محضة مخالف للسنة النبویة، ولیس ھو مما ذکر جوازہ في کتب الفقه، صحیح أم لا؟

فاعلم أن الوعظ في الخطبة یوم الجمعة لیس ببدعة أصلا، بل ھو جائز مشروع، ثابت بالسنة النبویة ثبوتاً بینا، مذکور جوازہ في کتب الفقه ذکرا صریحاً، وھا أنا أذکر شیئاً من الأحادیث النبویة ونبذا من عبارات الکتب الفقھیة۔

أما الأحادیث فکثیرة منھا: ما رواہ البخاري عن جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہ  قال: جاء رجل، و النبي صلی اللہ علیہ وسلم  یخطب الناس یوم الجمعة، فقال: (( أصلیت یا فلان؟ )) فقال: لا، قال: (( قم، فارکع )) وفي روایة عنہ لہ: (( قم فصل رکعتین )) [1] انتھی۔

وفي روایۃ عنہ لمسلم قال: جاء سلیک الغطفاني یوم الجمعة، ورسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  یخطب فجلس، فقال: (( یا سلیک قم فارکع رکعتین، وتجوز فیھما )) ثم قال: (( إذا جاء أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیرکع رکعتین، ولیتجوز فیھما )) [2] انتھی

قال الحافظ في فتح الباري: في ھذا الحدیث من الفوائد أن للخطیب أن یأمر في خطبته وینھیٰ، ویبین الأحکام المحتاج إلیھا، ولا یقطع ذلک التوالي المشترط فیھا، بل لقائل أن یقول: کل ذلک یعد من الخطبة۔[3] انتھی

ومنھا ما رواہ مسلم عن جابر بن سمرة قال: کانت للنبي صلی اللہ علیہ وسلم  خطبتان، یجلس بینھما، یقرأ القرآن ویذکر الناس۔[4] انتھی

قال النووي رحمہ اللہ: فیہ دلیل للشافعي في أنہ یشترط في الخطبۃ الوعظ والقراء ة قال الشافعي: لا یصح الخطبتان إلا بحمد   الله تعالیٰ والصلاة علی رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  فیھما والوعظ۔[5] انتھی

وقال الشوکاني في نیل الأوطار: استدل بہ علی مشروعیة القراء ة والوعظ في الخطبة۔[6]

ومنھا ما رواہ مسلم أیضاً عن جابر بن عبد   الله رضی اللہ عنہ  قال: کان رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  إذا خطب احمرت عیناہ، وعلا صوتہ، واشتد غضبہ، حتیٰ کأنہ منذر جیش، یقول: صبحکم ومساکم، ویقول: بعثت أنا والساعة کھاتین، ویقرب بین أصبعیہ السبابۃ والوسطیٰ، ویقول: أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب  اللّٰه ، وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم  وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة۔[7]

وفي روایة عنہ لہ: قال: کانت خطبة النبي صلی اللہ علیہ وسلم  یوم الجمعہ یحمد الله ویثني علیہ بما ھو أھلہ، ثم یقول: من یھدہ   الله فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادي لہ، وخیر الحدیث کتاب  اللّٰه ۔۔۔

 ثم ساق الحدیث بمثل الحدیث الأول۔[8]

ومنھا ما رواہ مسلم أیضاً عن أم ھشام بنت حارثة بن النعمان قالت: ما أخذت﴿ قٓ   * وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْد﴾ إلا عن لسان رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  یقرأھا کل یوم الجمعة علی المنبر إذا خطب الناس۔[9]

قال النووي: قال العلماء: سبب اختیار ق أنھا مشتملة علی البعث والموت والمواعظ الشدیدة والزواجر الأکیدة۔[10] انتھی

ومنھا ما رواہ أبو داود عن جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ  عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  أنہ کان لا یطیل الموعظة یوم الجمعة، إنما ھن کلمات یسیرات۔[11] قال في نیل الأوطار: فیہ أن الوعظ في الخطبة مشروع۔[12] انتھی

وأما عبارات الکتب الفقھیۃ فکثیرۃ أیضاً، منھا عبارة فتاویٰ قاضي خان: ’’قال بعضھم: ما دام الخطیب في حمد   الله تعالیٰ، والثناء علیہ، والوعظ للناس، فعلیھم الاستماع والإنصات، فإذا أخذ في مدح الظلمۃ والثناء علیھم، فلا بأس بالکلام حینئذ‘‘[13]انتھی

ومنھا عبارۃ فتح القدیر: ’’وعلی اشتراط نفس الخطبة إجماع، بخلاف ما قام الدلیل علی عدم اشتراطہ، ککونھا خطبتین، بینھما جلسة قدر ما یستقر کل عضو في موضعہ، یحمد   الله في الأولیٰ، ویتشھد ویصلي علیہ، وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام، ویعظ الناس۔۔۔ إلی أن قال: لأنہ قام الدلیل عند أبي حنیفةرحمہ اللہ علی أنہ من السنن أو الواجبات، لا شرط علی ما سنذکرہ‘‘[14]انتھی

ومنھا عبارتہ أیضاً: ’’ومن الفقہ والسنة تقصیرھا (أي تقصیر الخطبة) وتطویل الصلاة بعد اشتمالھا علی ما ذکرناہ آنفا من الموعظة والتشھد والصلاة وکونھا خطبتین‘‘[15] انتھی

ومنھا عبارۃ رد المحتار: ’’قولہ: ویبدأ أي قبل الخطبة الأولیٰ، بالتعوذ سرا، ثم بحمد  الله تعالیٰ والثناء علیہ، والشھادتین والصلاة علیٰ النبي صلی اللہ علیہ وسلم  والعظۃ والتذکیر والقراء ۃ‘‘[16] انتھی

ومنھا عبارة جامع الرموز شرح مختصر الوقایة۔۔۔ ’’فیبدأ بالتعوذ سرا، ثم یحمد  اللّٰه ، ثم یأتي بالشھادتین، ثم یصلي علیہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم، ثم یعظ الناس ثم یقرأ‘‘[17]انتھی

ومنھا عبارة البرجندي شرح مختصر الوقایة: ’’ویخطب خطبتین یحمد في الأولیٰ ویتشھد، ویصلي علیٰ النبي صلی اللہ علیہ وسلم  ویعظ الناس‘‘

ومنھا عبارة البرجندي أیضاً: ’’وفي شرح الطحاوي رحمہ : السنة في الخطبة أن یحمد  اللّٰه ، ویثني علیہ، ویعظ الناس، ویقرأ القرآن، ویصلي علیٰ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘[18] انتھی

ھذہ کلھا عبارات کتب الفقہ للحنفیة، ومنھا عبارة زاد المعاد في ھدي خیر العباد للعلامة الحافظ ابن القیم الحنبلي في ذکر خصائص یوم الجمعة الثانیة والعشرون: فیہ أن الخطبة التي یقصد بھا الثناء علی  اللّٰه ، وتمجیدہ، والشھادة لہ بالوحدانیة، ولرسولہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بالرسالة، وتذکیر العباد بأیامہ، وتحذیرھم من بأسہ ونقمتہ، ووصیتھم بما یقربھم إلیہ، وإلیٰ جنانہ، ونھیھم عما یقربھم من سخطہ ونارہ، فھذا ھو مقصود الخطبة والاجتماع لھا۔[19]انتھی

ومنھا عبارة زاد المعاد أیضاً في فصل ھدیہ صلی اللہ علیہ وسلم  في خطبہ: وکان یعلم أصحابہ في خطبته قواعد الإسلام، وشرائعہ، ویأمرھم وینھاھم في خطبته إذا عرض لہ أمر أو نھي، کما أمر الداخل، وھو یخطب أن یصلي رکعتین، ونھیٰ المتخطي رقاب الناس عن ذلک، وأمرہ بالجلوس، وکان یقطع خطبتہ للحاجة تعرض أو السؤال لأحد من أصحابہ فیجیبہ، ثم یعود إلیٰ خطبۃ فیتمھا، وکان ربما نزل عن المنبر للحاجة، ثم یعود فیتمھا، کما نزل لأخذ الحسن والحسین وأخذھما، ثم رقیٰ بھما المنبر، فأتم خطبتہ، وکان یدعو الرجل في خطبتہ: تعال اجلس یا فلان، صل فلان، وکان یأمرھم بمقتضٰی الحال في خطبتہ، فإذا رأی منھم ذا فاقۃ وحاجۃ، أمرھم بالصدقۃ، ویحضھم علیھا‘‘[20]انتھی

ومنھا عبارة الحافظ ابن حجررحمہ اللہ  في فتح الباري التي مرت تحت الحدیث الأول۔ ومنھا عبارتا الإمام النووي في شرح مسلم اللتان تقدمتا تحت الحدیث الثاني والرابع، ومنھا عبارتا الشوکاني رحمہ اللہ  في نیل الأوطار اللتان سبقتا تحت الحدیث الثاني والخامس۔ و  الله تعالیٰ أعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد عبد  اللّٰه ۔ یہ جواب صحیح و درست ہے۔ عبدالغنی ۔عفا الله عنہ۔ الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن عرب۔ الجواب صحیح عندي، و  الله أعلم بالصواب۔ أبو محمد إبراہیم۔

[الحمد ﷲ وکفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد: تم نے، الله تم پر رحم فرمائے، یہ سوال کیا ہے کہ خطبہ جمعہ میں وعظ کہنا جائز ہے یا نہیں اور کیا کسی شخص کا یہ کہنا کہ جمعے کے دن خطبہ جمعہ میں وعظ کہنا بدعتِ محضہ ہے، سنتِ نبویہ کے مخالف ہے اور فقہ کی کتابوں میں اس کے جواز کا کوئی ذکر نہیں ہے، صحیح ہے یا نہیں؟ آگاہ رہو کہ جمعے کے دن خطبے میں وعظ کرنا بالکل بدعت نہیں ہے، بلکہ وہ جائز و مشروع ہے۔ سنتِ نبویہ کے واضح ثبوت کے ساتھ ثابت ہے اور کتبِ فقہ میں صراحتاً اس کا ذکر موجود ہے۔ لیجیے ہم کچھ احادیثِ نبویہ اور کتبِ فقہ کی چند عبارتیں بطورِ ثبوت کے پیش کیے دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث بہت زیادہ ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

ایک حدیث تو وہ ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ  نے جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی آیا، درآنحالیکہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جمعے کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ اٹھو اور نماز پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ  ہی سے ایک روایت میں یوں ہے جو امام بخاری نے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے کہا کہ اٹھو اور دو رکعتیں ادا کرو۔

جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  سے ایک روایت صحیح مسلم میں یوں مروی ہے، کہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ  جمعے کے دن اس وقت تشریف لائے، جب رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ دے رہے تھے،  چنانچہ  یہ بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے سلیک! اٹھو اور دو رکعتیں پڑھو اور انھیں مختصر کرو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعے کے دن اس حال میں تشریف لائے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ مختصر دو رکعتیں ادا کرے۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’فتح الباری‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث میں چند فوائد ہیں۔ ایک یہ کہ خطیب کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے خطبے میں امر (بالمعروف) اور نہی (عن المنکر) کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ ان احکام کو واضح کرے، جن کی ضرورت ہے اور یہ خطبے کے اس تسلسل کو منقطع نہیں کرتا، جو خطبے میں مشروع ہے، بلکہ کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ خطبے ہی میں شمار ہوتا ہے۔

ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جو صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  دو خطبے دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔

امام نووی رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ  کی دلیل ہے کہ خطبے میں وعظ کہنا اور قراء ت کرنا شرط ہے۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ دونوں خطبے تب صحیح ہیں، جب ان میں   الله تعالیٰ کی حمد  بیان کی جائے، رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھا جائے اور وعظ و نصیحت کیا جائے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ  نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں کہا ہے کہ مذکورہ حدیث سے خطبۂ جمعہ میں قراء تِ قرآن اور وعظ و نصیحت کی مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے۔

ایک حدیث وہ ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ  ہی نے جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور غصہ شدید ہوجاتا، حتی کہ یہ کیفیت ہوجاتی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی حملہ آور لشکر سے آگاہ کرتے ہوئے فرما رہے ہوں: ’’وہ صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے: ’’مجھے (ایسے وقت میں) مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  درمیانی انگلی اور انگشتِ شہادت کو باہم ملاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے: ’’أما بعد‘‘ (حمد و ثنا اور صلاۃ و سلام کے بعد) سب سے بہترین کلام   الله کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ ہے۔ بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

صحیح مسلم ہی میں جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  سے مروی حدیث میں ہے، کہ جمعے کے دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا خطبہ یوں ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالیٰ کے لائق اور شایانِ شان اس کی حمد و ثنا بیان کرتے، پھر فرماتے: ’’جسے   الله تعالیٰ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ بہترین کلام   الله تعالیٰ کی کتاب ہے۔‘‘ پھر انھوں نے پہلی حدیث کی طرح حدیث کو بیان کیا ہے۔

ان میں سے ایک روایت صحیح مسلم ہی میں ہے، جو ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورت ق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے سن سن کر یاد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہر جمعے کو جب منبر پر لوگوں سے خطاب فرماتے تو اسے پڑھا کرتے تھے۔

امام نووی رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ خطبہ جمعہ میں سورت ق کی تلاوت کو اس لیے اختیار کیا گیا کہ یہ سورت موت، اس کے بعد اٹھائے جانے، مواعظِ شدیدہ اور زواجر اکیدہ پر مشتمل ہے۔

ایک حدیث وہ ہے، جسے امام ابو داود نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے، وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جمعے کے روز لمبا وعظ نہ فرمایا کرتے تھے، بلکہ چند مختصر سے کلمات ہوا کرتے تھے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ  نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس (حدیث) سے ثابت ہوا کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ کرنا مشروع ہے۔

رہی فقہی کتابوں کی عبارتیں تو وہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے ایک فتاویٰ قاضی خاں کی درجِ ذیل عبارت ہے:

’’ان (فقہا) میں سے بعض کا قول ہے کہ جب تک خطیب   الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا رہے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے تو ان (سامعین) پر واجب ہے کہ وہ خاموشی اختیار کریں اور توجہ سے سنیں۔ پھر جب وہ ظالم لوگوں کی مدح و ثنا بیان کرنے لگے تو اس وقت ان کے کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

ایک ’’فتح القدیر‘‘ کی درجِ ذیل عبارت ہے:

’’نفسِ خطبہ کے شرط ہونے پر اجماع ہے، بر خلاف اس چیز کے جس کے عدمِ اشتراط پر دلیل قائم ہو، جیسے دو خطبے دینا، دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھنا کہ ہر عضو اپنی جگہ پر واپس پلٹ آئے۔ (خطیب) پہلے خطبے میں   الله کی حمد بیان کرے گا، کلمہ شہادت (أشھد أن لا إلٰہ إلا  اللّٰه ، وأشھد أن محمدا رسول  اللّٰه ) پڑھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آل کے لیے دعا کرے گا اور لوگوں کو وعظ کرے گا۔ پھر دوسرے خطبے میں ایسے ہی کرے گا، ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اس خطبے میں وعظ کے بجائے مومن مردوں اور عورتوں کے حق میں دعا کرے گا ۔۔،  کیونکہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے نزدیک اس پر دلیل قائم ہے کہ ایسا کام کرنا سنن یا واجبات میں سے ہے، شرط نہیں ہے، اس بنا پر جو عن قریب ہم ذکر کریں گے۔‘‘

ان میں سے ’’فتح القدیر‘‘ ہی کی ایک عبارت یہ بھی ہے:

’’فقاہت اور سنت سے یہ ہے کہ خطبے کو چھوٹا کیا جائے اور نماز کو لمبا کیا جائے۔ خطبہ ان چیزوں پر مشتمل ہو، جن کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے اور وہ ہیں: وعظ کرنا، کلمہ شہادت پڑھنا، درود و سلام پڑھنا اور خطبے دینا۔‘‘

ایک عبارت ’’رد المحتار‘‘ کی ہے:

’’اس کا یہ قول کہ وہ ابتدا کرے، یعنی پہلے خطبے سے پہلے وہ سری طور پر تعوذ پڑھے، پھر الله تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، شہادتین (أشھد أن لا إلٰہ إلا  اللّٰه ، وأشھد أن محمدا رسول  اللّٰه ) پڑھے، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے، وعظ و نصیحت کرے اور (قرآنِ مجید کی) قراء ت کرے۔‘‘

’’جامع الرموز شرح مختصر الوقایة‘‘ کی درج ذیل عبارت ہے:

’’پس وہ سری طور پر تعوذ پڑھنے کے ساتھ خطبے کا آغاز کرے، پھر الله تعالیٰ کی حمد بیان کرے، پھر شہادتین پڑھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے، پھر لوگوں کو وعظ کرے اور پھر قرآنِ مجید کی قراء ت کرے۔‘‘

ان میں سے ایک ’’البرجندي شرح مختصر الوقایة‘‘ کی درجِ ذیل عبارت ہے:

’’وہ دو خطبے دے۔ پہلے خطبے میں   الله کی حمد اور کلمۂ شہادت پڑھے، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے اور لوگوں کو وعظ کرے۔‘‘

’’البرجندی‘‘ ہی کی ایک عبارت درج ذیل ہے:

’’شرح طحاوی میں ہے: خطبے میں سنت یہ ہے کہ (خطیب)   الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، لوگوں کو وعظ کرے، قرآنِ مجید کی قراءت کرے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھے۔‘‘

مذکورہ بالا تمام عبارات فقہ حنفی کی کتب سے درج کی گئی ہیں۔

خطبہ جمعہ میں وعظ و نصیحت کرنے کے ثبوت میں ایک عبارت درج ذیل ہے، جو حافظ ابن القیم حنبلی رحمہ اللہ  کی کتاب ’’زاد المعاد في ھدي خیر العباد‘‘ سے لی گئی ہے۔ جہاں پر اس کتاب میں جمعے کے دن کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے اکیسویں خصوصیت یہ ہے:

’’خطبے کا مقصد الله تعالیٰ کی ثنا بیان کرنا، اس کی بزرگی بیان کرنا، اس کی وحدانیت کی گواہی دینا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی گواہی دینا، اس کے بندوں کو اس کے ایام کے ساتھ نصیحت کرنا، ان کوالله تعالیٰ کی سزا اور عذاب سے ڈرانا، ان کو ایسی وصیت کرنا جو ان کو   الله تعالیٰ اور اس کی جنتوں کے قریب کر دے، ان کو ایسے عمل سے منع کرنا جو ان کو الله تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کی آگ کے قریب کر دے، چنانچہ یہی چیزیں خطبے کا مقصود ہیں اور اس پر اجماع ہے۔‘‘

زاد المعاد ہی میں ایک عبارت درجِ ذیل ہے، چنانچہ خطبے کے مسنون طریقے کے بیان میں ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے خطبے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو قواعدِ اسلام اور شرائعِ اسلام کی تعلیم دیتے تھے۔ اپنے خطبے میں ان کو امر و نہی کرتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے امر و نہی کا کوئی معاملہ پیش ہوتا، جیسے مسجد میں داخل ہونے والے صحابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دورانِ خطبہ میں حکم دیا کہ وہ دو رکعتیں ادا کرے۔ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنے والے کو اس کام سے منع کیا اور اسے وہیں بیٹھ جانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی حاجت کے پیشِ نظر یا اپنے اصحاب میں سے کسی کے سوال کرنے پر خطبے کو روک کر اس کا حل کرتے، سوال کا جواب دیتے، پھر دوبارہ خطبہ شروع کر کے اس کی تکمیل تک لے جاتے تھے۔ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی کام کے لیے منبر سے نیچے بھی اتر جاتے، پھر دوبارہ منبر پر چڑھ کر خطبہ مکمل فرماتے، جیسے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حسن و حسین رضی اللہ عنہما  کو پکڑنے کے لیے منبر سے اترے، ان دونوں کو اٹھایا اور انھیں لے کر منبر پر چڑھ گئے اور اپنا خطبہ مکمل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے خطبے میں کسی آدمی کو بلا لیتے اور فرماتے: اے فلاں! اِدھر آؤ۔ اے فلاں! بیٹھ جاؤ۔ اے فلاں! نماز ادا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے خطبے میں مقتضاے حال کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو حکم فرماتے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی حاجت مند اور فاقہ زدہ آدمی کو دیکھ لیتے تو انھیں (اپنے اصحاب کو) صدقہ کرنے کا حکم دیتے اور انھیں اس پر برانگیخت کرتے۔‘‘

ایک عبارت وہ ہے، جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کی کتاب ’’فتح الباري‘‘ میں ہے اور وہ مذکورہ بالا احادیث میں سے پہلی حدیث کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ اور دو عبارتیں شرح صحیح مسلم للنووی رحمہ اللہ  کی دوسری اور چوتھی حدیث کے تحت ذکر ہوچکی ہیں۔ ان میں دو عبارتیں امام شوکانی رحمہ اللہ  کی بھی ہیں، جو ’’نیل الأوطار‘‘ میں ہیں، چنانچہ وہ دوسری اور پانچویں حدیث کے ضمن میں گزر چکی ہیں،


[1]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۸۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۵)

[2]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۵)

[3]                فتح الباري (۶/ ۱۶۴)

[4]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۲)

[5]              شرح صحیح مسلم للنووي (۶/ ۱۵۰)

[6]                نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)

[7]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۷)

[8]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۷)

[9]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۳)

[10]             شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۶۱)

[11]               سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۱۱۰۷)

[12]             نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)

[13]               فتاویٰ قاضي خان (۱/ ۸۹)

[14]             فتح القدیر (۲/ ۵۶)

[15]             فتح القدیر (۲/ ۵۷)

[16]             رد المحتار (۲/ ۱۴۹)

[17]             جامع الرموز (ص: ۱۵)

[18]             شرح مختصر الوقایة (۱/ ۱۰۲)

[19]             زاد المعاد (۱/ ۳۸۶)

[20]               زاد المعاد (۱/ ۴۱۱)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:266

محدث فتویٰ

تبصرے