السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔خطبہ شرع شریف میں کس کو کہتے ہیں؟
2۔ خطبہ سے کیا مقصود ہے؟
3۔ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
4۔ ائمہ مجتہدین مشہورین میں سے کسی سے اس امر کا جواز منقول ہے یا نہیں؟
5۔ کتاب ’’بدور الأہلة‘‘ مولفہ نواب صدیق حسن خاں صاحب کے صفحہ (۷۳) میں جو یہ عبارت ’’رسم مستمر اسلام از زمن نبوت تا ایندم خواندن خطبہ است بعبارت عربی گو در بلاد عجم باش و ہر چند دلیلے مانع از غیر ایں لسان مبین مباش‘‘[12] واقع ہے، اس عبارت سے اس امر پر ’’کہ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں ممنوع ہے‘‘ استدلال صحیح ہے یا نہیں؟
ذیل کی حدیث سے جو دو سندوں سے مروی ہے، امر مذکورہ پر استدلال صحیح ہے یا نہیں؟ حدیث مذکور پہلی سند سے یہ ہے:
روی السلفي من حدیث سعید بن علاء البرذعي حدثنا إسحاق بن إبراھیم البلخي حدثنا عمر بن ھارون البلخي حدثنا أسامة بن زید عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( من یحسن أن یتکلم بالعربیة فلا یتکلم بالعجمیة، فإنہ یورث النفاق )) اھ۔
[سلفی نے سعید بن علاء البردعی کی حدیث سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں اسحاق بن ابراہیم بلخی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عمر بن ہارون بلخی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اسامہ بن زید نے بیان کیا، انھوں نے نافع سے روایت کیا، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عربی زبان میں اچھی گفتگو کر سکتا ہو، وہ عجمی زبان میں گفتگو نہ کرے، بلاشبہ ایسا کرنا نفاق پیدا کرتا ہے]
حدیث مذکور دوسری سند سے یہ ہے:
روی السلفي أیضاً بإسناد آخر معروف إلی أبي سھل محمود بن عمر العکبري حدثنا محمد بن الحسن بن محمد المقریٔ حدثنا محمد بن خلیل ببلخ حدثنا إسحاق بن إبراھیم الجریري حدثنا عمر بن ھارون عن أسامة بن زید عن نافع عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( من کان یحسن أن یتکلم بالعربیة فلا یتکلم بالفارسیة، فإنہ یورث النفاق ))
[سلفی ہی نے ایک دوسری معروف سند کے ساتھ ابو سہل محمود بن عمر العکبری تک روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن حسن بن محمد المقری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن خلیل نے بلخ میں بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اسحاق بن ابراہیم الجریری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عمر بن ہارون نے بیان کیا، انھوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا، انھوں نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عربی زبان میں اچھی گفتگو کر لیتا ہو تو وہ فارسی میں گفتگو نہ کرے، یقینا ایسا کرنا نفاق پیدا کرتا ہے]
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
:1۔ خطبہ شرع شریف میں اس کلام کا نام ہے جو ذکر الله اور تشہد (شہادتین) اور درود اور وعظ پر مشتمل ہو۔ مشکوۃ شریف (ص: ۱۱۵ مطبوعہ انصاری دہلی) کے حاشیہ میں ہے: ’’الخطبة في الشرع عبارة عن کلام، یشتمل علیٰ الذکر والتشھد والصلاة والوعظ‘‘ اھ۔ [شرع میں خطبے سے مراد ایسا کلام ہے جو ذکر، تشہد (شہادتین) درود اور وعظ پر مشتمل ہو] اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’أشعة اللمعات شرح مشکوة‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’خطبہ در عرفِ شرع عبارت است از کلام مشتمل بر ذکر و تشہد و صلاۃ و وعظ‘‘ اھ [عرفِ شرع میں خطبہ اس کلام کا نام ہے جو ذکر، تشہد (شہادتین) درود اور وعظ پر مشتمل ہو]
2۔ خطبہ سے بالذات صرف وعظ و تذکیر مقصود ہے و بس۔ سورت جمعہ میں ہے:
﴿ ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ﴾ اھ۔ الجمعة: ﴿٩﴾]
[اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو الله کے ذکر کی طرف لپکو]
اس آیت شریفہ میں ذکر الله سے وعظ و تذکیر مراد ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إذا کان یوم الجمعة وقفت الملائکة علیٰ باب المسجد یکتبون الأول فالأول، ومثل المھجر کمثل الذي یھدي بدنة، ثم کالذي یھدي بقرة، ثم کبشا، ثم دجاجة، ثم بیضة، فإذا خرج الإمام طووا صحفھم، ویستمعون الذکر )) [1] (رواہ البخاري)
[جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور آنے والوں کو ترتیب وار لکھتے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والا اس شخص کی طرح (اجر و ثواب پاتا) ہے، جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس شخص کی طرح جو گائے کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد والا بھیڑ کی قربانی کرنے والے کی طرح۔ پھر مرغی اور پھر اس کے بعد آنے والا ایسے ہے جیسے کوئی انڈہ صدقہ کرے۔ جب امام (منبر پر) آجاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور غور سے خطبہ سنتے ہیں]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (۱/ ۴۸۰ چھاپہ دہلی) میں فرماتے ہیں: ’’والمراد به (أي بالذکر) ما في الخطبة من المواعظ وغیرھا‘‘ اھ۔ [ذکر سے مراد وہ وعظ و نصیحت ہے جو خطبے میں ہوتے ہیں] صحیح بخاری میں جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
قال: جاء رجل والنبي صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس یوم الجمعة، فقال: (( أصلیت یا فلان؟ )) فقال: لا، قال: (( قم فارکع )) [2]
[بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اس وقت آیا، جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن لوگوں کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا: اے فلاں! کیا تونے نماز ادا کی؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور نماز ادا کرو]
فتح الباری (۱/ ۵۰۱) میں ہے:
’’وفي ھذا الحدیث من الفوائد أن للخطیب أن یأمر في خطبته وینھیٰ ویبین الأحکام المحتاج إلیھا‘‘
[اس حدیث میں چند فوائد ہیں: خطیب اپنے خطبے میں امر و نہی کرے اور وہ احکام بیان کرے جن کی ضرورت ہے]
صحیح مسلم (۱/ ۲۸۳) میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’قال: کانت للنبي صلی اللہ علیہ وسلم خطبتان، یجلس بینھما، یقرأ القرآن ویذکر الناس‘‘[3]
[بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے]
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’فیه دلیل للشافعي في أنہ یشترط في الخطبة الوعظ والقراءة، قال الشافعي: لا تصح الخطبتان إلا بحمد الله تعالیٰ والصلاة علی رسول الله صلی الله تعالیٰ علیه وآلہ وسلم فیھما والوعظ‘‘[4]اھ۔
[اس میں امام شافعی رحمہ اللہ کی یہ دلیل ہے کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ و نصیحت اور تلاوتِ قرآن کرنا شرط ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: دونوں خطبے اس وقت ہی درست ہوتے ہیں، جب ان میں الله تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی جائے]
شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار (۳/ ۱۴۵) میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’استدل بہ علیٰ مشروعیة القراء ةوالوعظ في الخطبة، وقد ذھب الشافعي إلی وجوب الوعظ وقراءة آیة‘‘[5] اھ۔
[اس سے خطبے میں قراء تِ قرآن اور وعظ و نصیحت کی مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ خطبے میں وعظ کرنا اور آیت کی تلاوت کرنا واجب ہے]
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’أشعة اللمعات‘‘ میں اس حدیث کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
’’بود مر آنحضرت را دو خطبہ کہ می نشست میان ہر دو خطبہ می خواند قرآن را در خطبہا و پند می داد مردان را ویاد می داد آخرت را و احوال آنجہان را از ثواب و عقاب‘‘ اھ
[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے، ان دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے، دونوں خطبوں میں قرآنِ مجید کی تلاوت فرماتے تھے، لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے، آخرت کی یاد دلاتے تھے اور آخرت کے ثواب و عذاب کے احوال ذکر فرماتے تھے]
سنن ابی داود (۱/ ۱۵۹ مطبوعہ نولکشور) میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا یطیل الموعظة یوم الجمعة إنما ھن کلمات یسیرات‘‘[1]
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز لمبا وعظ نہ فرمایا کرتے تھے، بلکہ چند مختصر سے کلمات ہوا کرتے تھے]
شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار (۳/ ۱۴۵) میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’فیه أن الوعظ في الخطبة مشروع‘‘[2] اھ۔
[اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ خطبۂ جمعہ میں وعظ کرنا مشروع ہے]
صحیح مسلم (۱/ ۲۸۶) میں ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’قالت: ما أخذت ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ﴿١﴾ إلا عن لسان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، یقرأھا کل یوم جمعة علیٰ المنبر إذا خطب الناس‘‘[3]
[ام ہشام رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورت ق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سن سن کر یاد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعے کو جب منبر پر لوگوں سے خطاب فرماتے تو اسے پڑھا کرتے تھے]
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’قال العلماء: سبب اختیار ق أنھا مشتملة علیٰ البعث والموت والمواعظ الشدیدة والزواجر الأکیدة‘‘[4] اھ۔
[علما رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ خطبہ جمعہ میں سورت ق کی تلاوت کو اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ سورت موت، اس کے بعد اٹھائے جانے، مواعظِ شدیدہ اور زواجرِ اکیدہ پر مشتمل ہے]
مشکوۃ شریف صفحہ (۱۱۰) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مذکور ہے:
’’قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والأضحیٰ إلی المصلیٰ، فأول شيء یبدأ بہ الصلاة، ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس و الناس جلوس علیٰ صفوفھم فیعظھم ویوصیھم ویأمرھم‘‘[5]الحدیث (متفق علیه)
[(راوی) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نماز پڑھاتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے، درآنحالیکہ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو وعظ فرماتے، ان کو وصیت کرتے اور ان کو (نیکی وغیرہ کا) حکم دیتے]
صفحہ (۱۱۸) میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس طرح مذکور ہے:
’’قال: شھدت الصلاة مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم في یوم عید فبدأ بالصلاة قبل الخطبة بغیر أذان ولا إقامة، فلما قضی الصلاة، قام متکئا علیٰ بلال، فحمد الله وأثنیٰ علیہ، ووعظ الناس، وذکرھم، وحثھم علی طاعتہ، ومضیٰ إلی النساء، ومعہ بلال، فأمرھن بتقوی اللّٰه ، ووعظھن وذکرھن‘‘[6](رواہ النسائي)
[(راوی) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کے روز نمازِ عید میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر اذان اور اقامت کے خطبے سے پہلے نمازِ عید پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری فرمائی تو بلال رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ( الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی) اطاعت کی تلقین فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف سے ہو کر عورتوں کی طرف گئے۔ بلال رضی اللہ عنہ بدستور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (عورتوں) کو الله تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا اور انھیں وعظ و نصیحت فرمائی]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ’’زاد المعاد‘‘ (۱/ ۱۲۱ چھاپہ نظامی) میں فرماتے ہیں: ’’وکان ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یعلم أصحابه في خطبته قواعد الإسلام وشرائعہ‘‘ اھ۔ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسلام کے قواعد و شرائع کی تعلیم دیتے تھے] جلد (۱) صفحہ (۱۱۱) میں خصائصِ جمعہ کے بیان میں فرماتے ہیں:
’’الثانیة والعشرون: أن فیه الخطبة التي یقصد بھا الثناء علی اللّٰه ، وتمجیدہ، والشھادة لہ بالوحدانیة، ولرسوله صلی اللہ علیہ وسلم بالرسالة، وتذکیر العباد بأیامه، وتحذیرھم من بأسہ ونقمته، ووصیتھم بما یقربھم إلیه وإلی جنانه، ونھیھم عما یقربھم إلی سخطه، ونارہ، فھذا ھو مقصود الخطبة والاجتماع لھا‘‘ اھ۔
[اکیسویں خصوصیت: خطبے کا مقصد الله تعالیٰ کی ثنا بیان کرنا، اس کی بزرگی بیان کرنا، اس کی وحدانیت کی گواہی دینا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا، اس کے بندوں کو اس کے ایام کے ساتھ نصیحت کرنا، ان کو الله تعالیٰ کی سزا اور عذاب سے ڈرانا، ان کو ایسی وصیت کرنا، جو ان کو الله تعالیٰ اور اس کی جنتوں کے قریب کر دے، ان کو ایسے عمل سے منع کرنا جو ان کو الله تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کی آگ کے قریب کر دے، چنانچہ یہی چیزیں خطبے کا مقصود ہیں اور اس پر اجماع ہے]
فتح القدیر شرح ہدایہ (۱/ ۲۶ چھاپہ نولکشور) میں ہے:
’’یحمد في الأولیٰ، ویتشھد، ویصلي علیه صلی الله علیہ وسلم، ویعظ الناس‘‘
[(خطیب) پہلے خطبے میں الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، تشہد (شہادتین) پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرے]
صفحہ (۲۶۱) میں ہے: ’’قوله: لحصول المقصود، وھو الذکر والموعظة‘‘ [اس کے قول ’’مقصود کے حصول کے لیے‘‘ سے مقصود وعظ و نصیحت ہے] ’’رد المحتار‘‘ (۱/ ۵۴۴ چھاپہ دہلی) میں ہے:
’’قوله: ویبدأ أي قبل الخطبة الأولیٰ بالتعوذ سرا، ثم بحمد الله تعالیٰ والثناء علیه، والشھادتین، والصلاة علیٰ النبي صلی اللہ علیہ وسلم والعظة والتذکیر والقراءة‘‘ اھ۔
[اس کا یہ قول کہ وہ ابتدا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ (خطیب) پہلے خطبے سے پہلے سری طور پر تعوذ پڑھے، پھر الله تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر شہادتین (’’أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه ، وأشھد أن محمداً رسول اللّٰه ‘‘) پڑھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، وعظ و نصیحت کرے اور (قرآن مجید کی) قراء ت کرے]
جامع الرموز شرح مختصر الوقایہ (۱/ ۱۱۸ چھاپہ محمدی دہلی) میں ہے: ’’فیبدأ بالتعوذ سرا، ثم یحمد اللّٰه ، ثم یأتي بالشھادتین، ثم یصلي علیہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یعظ الناس‘‘ اھ۔
[پس وہ سری طور پر تعوذ پڑھنے کے ساتھ خطبے کا آغاز کرے، پھر الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر شہادتین پڑھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، پھر لوگوں کو وعظ کرے]
’’برجندی شرح مختصر الوقایة‘‘ (۱/ ۲۰۱ چھاپہ نولکشور) میں ہے:
’’ویخطب خطبتین، یحمد في الأولیٰ، ویتشھد ویصلي علیٰ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ویعظ الناس‘‘ اھ۔
[وہ (خطیب) دو خطبے دے۔ پہلے خطبے میں الله تعالیٰ کی حمد اور کلمہ شہادت (’’أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه ، وأشھد أن محمداً رسول اللّٰه ‘‘) پڑھے، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور لوگوں کو وعظ کرے]
اسی صفحے میں ہے:
’’وفي شرح الطحاوي رحمه الله السنة في الخطبة أن یحمد اللّٰه ، ویثني علیہ، ویعظ الناس‘‘ اھ۔
[شرح طحاوی میں ہے: خطبے میں سنت یہ ہے کہ (خطیب) الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، لوگوں کو وعظ کرے، (قرآن مجید کی) قراء ت کرے اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے]
فتاویٰ قاضی خان (۱/ ۸۸ چھاپہ نولکشور) میں ہے:
’’قال بعضھم: ما دام الخطیب في حمد الله تعالیٰ والثناء علیہ والوعظ للناس فعلیھم الاستماع والإنصات‘‘ اھ۔
[ان (فقہا) میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جب تک خطیب الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا رہے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے تو لوگوں پر خاموشی کے ساتھ اسے سننا واجب ہے]
فتاویٰ سراجیہ بر حاشیہ فتاویٰ قاضی خان (۳/ ۱۰۳ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’لو خطب بالفارسیة یجوز‘‘ اھ۔ [اگر وہ (خطیب) فارسی میں خطبہ دے تو جائز ہے] ’’سفر السعادة‘‘ اور اس کی شرح (ص: ۲۶۷ مطبوعہ کلکتہ) میں ہے:
’’و در خطبہ قواعدِ اسلام را بیان فرمودے و مہماتِ دین را تعلیم کر دے و بذکر موت و تزہید در دنیا و ترغیب در آخرت تذکیر نمودے ‘‘ اھ
[(خطیب) خطبہ (جمعہ) میں قواعدِ اسلام کو بیان کرے، دین کی اہم باتوں کی تعلیم دے اور موت کا ذکر کر کے، دنیا کی بے رغبتی پیدا کر کے اور آخرت کی ترغیب دے کر لوگوں کو نصیحت فرمائے]
صفحہ (۲۶۰) میں خصائصِ جمعہ کے بیان میں ہے:
’’خاصیت سی و دویم اختصاص ایں روز است باجتماع مومناں برائے وعظ و تذکیر یعنی بطریق وجوب‘‘ اھ
[بتیسویں خصوصیت: اس روزِ (جمعہ) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس دن مومنوں کو اکٹھا کیا جائے اور بطریقِ وجوب ان کو وعظ و نصیحت کی جائے]
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ’’دلیل الطالب‘‘ (ص: ۳۷۴ و ۳۷۵) میں فرماتے ہیں:
’’اعلم أن الخطبة المشروعة ھي ما کان یعتادہ صلی اللہ علیہ وسلم من ترغیب الناس وترھیبھم، فھذا في الحقیقة ھو روح الخطبة الذي لأجلہ شرعت، وأما اشتراط الحمد والصلاة علی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أو قراءة شيء من القرآن فجمیعہ خارج عن معظم المقصود من شرعیة الخطبة، واتفاق مثل ذلک في خطبتہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یدل علی أنہ مقصود متحتم، وشرط لازم، ولا یشک منصف أن معظم المقصود ھو الوعظ دون ما یقع فیھا من الحمد والصلاۃ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وقد کان عرف العرب المستمر أن أحدھم إذا أراد أن یقوم مقاما، ویقول مقالا، شرع بالثناء علیٰ الله و علی رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وما أحسن ھذا و أولاہ، ولکن لیس ھو المقصود، بل المقصود ما بعدہ، وإذا تقرر ھذا عرفت أن الوعظ في خطبة الجمعة ھو الذي یساق إلیہ الحدیث، فإذا فعلہ الخطیب فقد فعل الأمر المشروع إلا أنہ إذا قدم الثناء علیٰ الله وعلیٰ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم أو استطرد في وعظہ القوارع القرآنیة کان أتم وأحسن‘‘ اھ۔
[آگاہ رہو! مشروع خطبہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ معمول ارشاد فرماتے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ترغیب و ترہیب کرتے۔ پس فی الحقیقت خطبے کی روح یہی ہے، جس کے لیے اسے مشروع قرار دیا گیا ہے۔ رہا خطبے میں الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا یا قرآن مجید کے کچھ حصے کی تلاوت کرنا تو یہ سب چیزیں شرعیتِ خطبہ کے معظمِ مقصود سے خارج ہیں۔ اس طرح کی چیزوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں پایا جانا، اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ خطبے کا حتمی مقصود اور شرطِ لازم ہے۔ انصاف پسند شخص کسی شک میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خطبے کا سب سے بڑا مقصود وعظ و نصیحت ہے نہ کہ وہ حمد و صلات جو خطبے کی ابتدا میں ہوتے ہیں۔ عربوں کے ہاں یہ معروف طریقہ تھا کہ ان میں سے جب کوئی کسی جگہ کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہتا تو وہ اپنی گفتگو کا آغاز الله تعالیٰ کی حمد اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے ساتھ کرتا، یہ طریقہ کس قدر احسن اور اولیٰ ہے، لیکن اگر کوئی کہنے والا کہے کہ کسی محفل میں جو شخص خطیب بن کر کھڑا ہوا، اس کو اس پر اُبھارنے والی صرف یہ چیز ہے کہ وہ حمد و صلات بیان کرے تو اس کی یہ بات مقبول نہیں ہوگی، بلکہ ہر طبعِ سلیم ناگوار جانتے ہوئے اس کا رد کرے گی۔ جب یہ ثابت ہوچکا تو تمھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ خطبہ جمعہ میں وعظ ہی وہ چیز ہے، جس کے لیے بات کو لایا جاتا ہے، لہٰذا جب خطیب یہ کام کرے گا تو وہ مشروع کام کا کرنے والا شمار ہوگا۔ ہاں جب وہ اپنے خطبے کے آغاز میں الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے گا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے گا اور کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کرے گا تو اس کا خطبہ مکمل اور احسن ہوگا]
’’بدور الأہلة‘‘ (ص: ۷۲) میں فرماتے ہیں: ’’وخطبه مجرد موعظت است کہ بدان عباد الله را انذار کنند‘‘ اھ [خطبہ (جمعہ) تو محض وعظ و نصیحت کا نام ہے، جس کے ذریعے سے الله کے بندوں کو خبردار کیا جائے] نیز اسی صفحہ میں ہے:
’’وخطبہ نبوی مشتمل برحمد و صلاۃ مے بود وایں اشتمال استفتاح خطبہ مقصود و مقدمہ از مقدماتش باشد و مقصود بالذات وعظ و تذکیر است نہ حمد و صلاۃ۔ حاصل آنکہ روح خطبہ موعظہ حسنہ است از قرآن باشد یا غیر آن‘‘
[نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حمد و صلات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ حمد و صلات مقصودِ خطبہ کا آغاز اور اس کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ ہے۔ خطبے کا مقصود بالذات وعظ و نصیحت ہے نہ کہ حمد و صلات۔ الحاصل خطبے کی روح ایک اچھا اور عمدہ وعظ ہے، خواہ وہ قرآن سے ہو یا غیرِ قرآن سے]
’’النہج المقبول من شرائع الرسول‘‘ (ص: ۲۸) میں ہے: ’’خطبہ مجرد و عظ است‘‘ اھ [خطبہ تو صرف وعظ کا نام ہے] ’’عرف الجادي من جنان ہدي الہادي‘‘ (ص: ۴۳) میں ہے: ’’ومعظم مقصودِ خطبہ وعظ است بہ ترغیب و ترہیب‘‘ [خطبے کا سب سے بڑا مقصود ترغیب و ترہیب کے ساتھ وعظ و نصیحت ہے]
3۔ خطبہ میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو زبان میں شرعاً جائز ہے اور اردو یا فارسی کی کچھ خصوصیت نہیں، ہر زبان میں، جس میں سامعین سمجھ سکیں، جائز ہے، کیونکہ جب خطبے سے اصلی مقصود اور خطبے کی روح صرف وعظ و تذکیر ہے کہ سوال نمبر1 کے جواب سے معلوم ہوچکا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی کلام پر وعظ و تذکیر کا اطلاق اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے، جبکہ وہ کلام اسی زبان میں ہو، جس کو سامعین سمجھ سکیں اور اگر وہ کلام غیر زبان میں ہو، جس کو سامعین نہ سمجھ سکیں تو اس پر وعظ و تذکیر کے معنی ہرگز ہرگز صادق نہ آئیں گے اور اس صورت میں وہ چیز جو روحِ خطبہ ہے، بالضرور فوت ہوجائے گی اور وہ خطبہ مثل قالب بے جان کے ہو جائے گا، جس پر اطلاق خطبہ حقیقتاً ہرگز صحیح نہ ہو سکے گا۔
4۔ ائمہ مجتہدین مشہورین میں سے ایک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، جن کا یہ مذہب ہے کہ خطبہ عربی زبان میں شرط نہیں ہے، بلکہ باوجود قدرت کے بھی خطبہ غیر عربی زبان میں، کوئی زبان ہو، جائز ہے۔ ’’رد المحتار‘‘ (ص: ۵۴۳) میں ہے:
’’لم یقید الخطبة بکونھا عربیة اکتفاء بما قدمہ في باب صفة الصلاة من أنھا غیر شرط، ولو مع القدرة علیٰ العربیة عندہ‘‘ اھ۔
[انھوں نے یہ قید نہیں لگائی کہ خطبہ (جمعہ) عربی زبان ہی میں ہو۔ اس پر اکتفا کرتے ہوئے جو انھوں نے ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ خطبے کا عربی میں ہونا شرط نہیں ہے، اگرچہ وہ (خطیب) عربی زبان میں خطبہ دینے کی قدرت رکھتا ہو]
5۔ ’’بدرو الأہلۃ‘‘ کی عبارت منقولہ استفتا سے استدلال اس امر پر کہ خطبے میں وعظ و تذکیر فارسی یا اُردو میں ممنوع ہے، صحیح نہیں، اس لیے کہ عبارت مذکورہ میں جو ایک نہایت ہی عام دعویٰ کیا گیا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس دعویٰ کا کیا ثبوت ہے اور ایسے عام دعوے کا احاطہ عملی کیونکر حاصل ہوا اور اس سے قطع نظر کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا منقولہ بالا فتوی اس دعوے کے عموم کا ناقض ہے، خود اسی عبارت منقولہ میں یہ بھی موجود ہے کہ ’’ہر چند دلیلے مانع از غیر ایں لسان مبین مباش‘‘ بھلا جب کوئی دلیل غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے موجود نہ ہو تو غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنا ممنوع کیونکر ثابت ہوگا؟ کیونکہ ممنوعیت (یعنی حرمت یا کراہت) حکم شرعی ہے اور یہ جب حکم شرعی ہے اور اس کے حکم شرعی ہونے سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا اور ہر حکم شرعی کے ثبوت کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل شرعی ضرور ہونی چاہیے تو اس ممنوعیت کے ثبوت کے لیے بھی کوئی دلیل شرعی کیوں ضروری نہ ہوگی اور جب کوئی دلیل موجود نہ ہو تو ممنوعیت کے ثبوت کی کیا صورت ہے؟
خطبے میں وعظ و تذکیر فارسی یا اردو میں ناجائز ہونے پر حدیث مذکور سے استدلال بوجوہ صحیح نہیں ہے:
اولاً: (اس امر کے تسلیم کے بعد کہ سلفی نے حدیث مذکور کو ان دو سندوں سے روایت کیا ہے) حدیث مذکور کی پہلی سند میں ایک راوی ’’عمر بن ہارون بلخی‘‘ ہے، جو ثقہ نہیں ہے۔ ائمہ حدیث نے اس پر متعدد وجوہ سے سخت جرحیں کی ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمد بن حنبل اور نسائی نے اس کو متروک الحدیث اور یحییٰ نے کذاب خبیث اور ابو داود نے غیر ثقہ اور علی اور دارقطنی نے نہایت ضعیف اور صالح جزرہ نے کذاب اور ابو علی نیشاپوری نے متروک کہا ہے اور ابنِ حبان نے یہ کہا ہے کہ وہ ثقات سے معضلات روایت کیا کرتا ہے۔
علامہ ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۲۴۵) میں فرماتے ہیں:
’’قال ابن مھدي وأحمد والنسائي: متروک الحدیث، وقال یحییٰ: کذاب خبیث، وقال أبو داود: غیر ثقة، وقال علي والدارقطني: ضعیف جدا، وقال صالح جزرة: کذاب، وقال أبو علي النیسابوري: متروک، وقال ابن حبان: یروي عن الثقات المعضلات‘‘[7]اھ۔
[ابن مہدی، احمد اور نسائی رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ یحییٰ رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ کذاب اور خبیث ہے۔ ابو داود رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ غیر ثقہ ہے۔ علی اور دارقطنی رحمہما اللہ نے کہا کہ وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ صالح جزرہ رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ کذاب ہے۔ ابو علی نیسابوری رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ متروک ہے اور ابنِ حبان رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ ثقہ راویوں سے معضل روایات بیان کرتا ہے]
ثانیاً: حدیث مذکور کی دوسری سند میں ایک راوی ’’محمد بن الحسن بن محمد المقریٔ‘‘ ہے، جو حدیث کی روایت میں جھوٹ بھی بولا کرتا تھا۔
علامہ ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۳۶۷) میں فرماتے ہیں:
’’محمد بن الحسن بن محمد بن زیاد الموصلي ثم البغدادي، أبو بکر النقاش، المقریٔ المفسر، قال طلحة بن محمد الشاھد: کان النقاش یکذب في الحدیث، والغالب علیہ القصص، وقال البرقاني: کل حدیث النقاش منکر، وقال أبو القاسم اللالکائي: تفسیر النقاش إشقاء الصدور لیس بشفاء الصدور‘‘
[محمد بن الحسن بن محمد الموصلی ثم البغدادی ابوبکر النقاش المقری المفسر کے بارے میں طلحہ بن زیاد الشاہد نے کہا کہ نقاش حدیث میں جھوٹ بھی بولا کرتا تھا، اس کا غالب شغل قصہ گوئی تھا۔ برکانی رحمہ اللہ نے کہا کہ نقاش کی ہر حدیث منکر ہے۔ ابوالقاسم اللالکائی رحمہ اللہ نے کہا کہ نقاش کی تفسیر دلوں کی بدبختی کا باعث ہے نہ کہ ان کی شفا کا]
ثالثاً: حدیث مذکور کی دوسری سند میں ایک اور راوی ’’محمد بن خلیل بلخی‘‘ ہے، جو حدیثیں خود بنایا کرتا تھا۔ علامہ ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۳۷۵) میں فرماتے ہیں:
’’محمد بن خلیل الذھلي البلخي، قال ابن حبان: یضع الحدیث‘‘[8]
[محمد بن خلیل ذہلی بلخی کے بارے میں ابنِ حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ خود حدیثیں بنایا کرتا تھا]
رابعاً: حدیث مذکور صحیح حدیث کی مخالف ہے۔ حدیث مذکور میں ہے: ’’فإنه یورث النفاق‘‘ یعنی فارسی بولی مورثِ نفاق ہوتی ہے اور صحیح بخاری میں سورۂ جمعہ کی تفسیر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیتِ کریمہ﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ﴾ [الجمعة: ۳] نازل ہوئی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوتا تو بھی اہلِ فارس میں سے کتنے لوگ اس کو ضرور پا لیتے۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اگر فارسی بولی مورثِ نفاق ہوتی تو اہلِ فارس ایسی مدح کے مستحق نہ ہوتے۔
صحیح بخاری کی حدیث مذکور یہ ہے:
عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: کنا جلوسا عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم فأنزلت علیہ سورة الجمعة:﴿وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ﴾ قال: قلت: من ھم یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ؟! فلم یراجعه حتی سأل ثلاثا، وفینا سلمان الفارسي، وضع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یدہ علیٰ سلمان، ثم قال: (( لو کان الإیمان عند الثریا لنالہ رجل أو رجال من ھؤلاء )) وفي روایة أخری: (( لنالہ رجال من ھؤلاء )) [9]
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی (جس میں یہ آیت بھی تھی):﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ﴾ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان ثریا (کہکشاں) کے پاس بھی ہوتا تو پھر بھی ان لوگوں (اہلِ فارس) کا کوئی آدمی یا کتنے لوگ اس کو ضرور پا لیتے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ان لوگوں (اہلِ فارس) میں سے کتنے لوگ اسے ضرور پا لیتے]
خامساً: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب ہی اس لفظ سے منعقد فرمایا ہے:
’’باب من تکلم بالفارسیة والرطانة، وقولہ تعالیٰ﴿وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ﴾ وقال:﴿وَ مَآاَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ﴾[10] اھ۔
اس کے بعد تین حدیثیں اس باب میں ذکر کی ہیں، جس میں مذکور ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض بعض اوقات دوسری دوسری زبانوں کے بعض بعض الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔[11]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (۳/ ۱۳۳ چھاپہ دہلی) میں اس مقام کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’أشار المصنف إلیٰ ضعف ما ورد من الأحادیث الواردة في کراھة الکلام بالفارسیة کحدیث: کلام أھل النار بالفارسیة، وکحدیث: من تکلم بالفارسیة زادت في خبثه ونقصت من مروء ته۔ أخرجہ الحاکم في مستدرکه، وسندہ واہ، وأخرج فیہ أیضاً عن عمر رفعه: من أحسن العربیة فلا یتکلمن بالفارسیة، فإنه یورث النفاق۔ الحدیث، وسندہ واہ أیضاً‘‘
[فارسی زبان میں کلام کرنے کی کراہت اور ناپسندیدگی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے ضعف کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے، جیسے یہ حدیث: ’’جہنمیوں کا (آپس میں) کلام فارسی زبان میں ہوگا‘‘ اور یہ حدیث: ’’جو شخص فارسی میں کلام کرے گا تو یہ (فارسی کلام) اس کی خباثت میں اضافہ اور اس کی مروء ت میں کمی واقع کر دے گی۔‘‘ اس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے، جبکہ اس کی سند سخت ضعیف ہے، انھوں نے اس کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ جس شخص کو اچھی عربی بولنی آتی ہو تو وہ فارسی میں کبھی کلام نہ کرے، کیونکہ یہ مورثِ نفاق ہے۔۔۔ الحدیث۔ اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے]
سادساً: حدیث مذکور کا مضمون صرف اس قدر ہے کہ جس کو اچھی عربی بولنی آتی ہو، اس کو فارسی یا اور کسی زبان میں بولنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ عربی کے سوا دوسری ساری بولیاں مورثِ نفاق ہوتی ہیں تو اگر بالفرض حدیث مذکور صالح احتجاج بھی ہو تو بھی اس سے اسی قدر ثابت ہوگا کہ جس کو اچھی عربی بولنی آتی ہو وہ دوسری کوئی بولی نہ بولے، نہ یہ کہ جو شخص عربی اصلاً بول ہی نہ سکتا ہو یا بول تو سکتا ہو، لیکن اچھی عربی نہ بول سکتا ہو، وہ بھی عربی کے سوا دوسری کوئی بولی نہ بولے اور ہر ذی عقل اتنا سمجھ سکتا ہے کہ اچھی عربی بولنے والے سے بھی اس حکم کی تعمیل جب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے مخاطبین، جن سے وہ عربی بولے، اس کی عربی بولی سمجھ بھی سکتے ہوں۔ ورنہ ان سے عربی بولنا محض عبث ہی نہیں، بلکہ سراسر بے عقلی ہے۔﴿ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ ﴾ [حم السجدۃ: ۴۴]
الغرض حدیث مذکور سے بفرضِ صحتِ احتجاج اسی قدر ثابت ہوگا کہ جب کوئی متکلم اچھی عربی بول سکتا ہو اور اس کے مخاطبین بھی اس کی عربی سمجھ سکتے ہوں تو اس کو عربی کے سوا اور کسی زبان میں بولنا ناجائز ہوگا، لیکن یہ امر متنازع فیہ نہیں ہے۔ متنازع فیہ امر یہ ہے کہ جب خطیب عربی بول ہی نہ سکتا ہو یا بول سکتا ہو، لیکن اچھی عربی نہ بول سکتا ہو یا اچھی عربی بھی بول سکتا ہو، لیکن اس کے سامعین اس کی عربی سمجھ نہ سکتے ہوں تو کیا ایسی حالت میں بھی اس کو عربی ہی میں خطبہ پڑھنا ضروری ہوگا اور دوسری کسی زبان میں جس کو سامعین سمجھ سکتے ہوں، خطبہ پڑھنا ممنوع اور ناجائز ہوگا؟ بس یہی امر متنازع فیہ ہے اور حدیث مذکور اس امر سے بالکل ساکت ہے۔
الحاصل حدیث مذکور سے (بفرض صلاحیتِ احتجاج) جس امر کی ممنوعیت اور ناجوازی ثابت ہوتی ہے، اس سے یہاں بحث نہیں ہے اور جس امر سے یہاں بحث ہے، حدیث مذکور سے اس کی ناجوازی ثابت نہیں ہوتی۔
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۱۱۰۷)
[2] نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)
[3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۳)
[4] شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۶۱)
[5] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۹۱۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۸۹)
[6] سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۵۷۵)
[7] اس حدیث کو امام حاکم نے ’’المستدرک‘‘ (۴/ ۸۷) میں بیان کیا ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: ’’عمر بن ہارون کذبه ابن معین، وترکه الجماعة‘‘ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وسندہ واہ‘‘ (فتح الباري: ۶/ ۱۸۴) نیز دیکھیں: اللآلیٔ المصنوعة (۲/ ۲۳۸) تنزیه الشریعة (۲/ ۳۵۷) الفوائد المجموعة (ص: ۲۲۱) السلسلة الضعیفة، رقم الحدیث (۵۲۳)
[8] اصل کتاب میں حدیث کی سند میں مذکور راوی کا نام ’’أحمد بن الخلیل‘‘ ہے اور اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔
[9] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۶۱۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۴۶)
[10] صحیح البخاري (۳/ ۱۱۱۷)
[11] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۹۰۵، ۲۹۰۶، ۲۹۰۷)
[12] زمانہ نبوت سے اب تک اسلامی طریقہ خطبہ عربی عبارت میں پڑھنا ہے، خواہ عجمی ملک میں ہو۔ اگرچہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ جمعہ کے منع ہونے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۸۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۵۰)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۸۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۷۵)
[3] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۶۲)
[4] شرح صحیح مسلم (۶/ ۱۵۰)
[5] نیل الأوطار (۳/ ۳۲۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب