السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص مسجد میں جمعے کی نماز پڑھنے جاتا تھا۔ بعض آدمیوں نے اس کو منع کیا کہ تم اس مسجد میں نماز پڑھنے
مت آؤ۔ جو لوگ خانہ خدا میں الله تعالیٰ کی عبادت سے منع کرتے ہیں، ان کا حکم الله جل شانہ کے نزدیک کیا ہے؟
نمازِ جمعہ کے ادا ہونے میں فقہ کی کتابوں میں سات شرطیں لکھتے ہیں، ان میں سے ایک شرط اِذنِ عام ہے، جیسا کہ اور شرط کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، مثلاً جماعت اور ظہر کا وقت شرط ہے۔ جماعت اور ظہر کا وقت نہ پائے جانے سے جمعہ درست نہیں ہوگا، اسی طرح اِذنِ عام کے نہ پائے جانے سے جمعہ درست ہوگا یا نہیں اور کافروں کو مسجد میں آنے دینا درست ہے یا نہیں؟ مدلل بحوالہ کتب بیان فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: جو شخص خانہ خدا میں الله تعالیٰ کے ذکر اور عبادت سے منع کرے، وہ بہت بڑا ظالم ہے اور دنیا میں اُن لوگوں کے واسطے رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
الله جل شانہ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١١٤﴾ [البقرۃ]
’’اور کون ہے بہت ظالم اس شخص سے جو منع کرتا ہے مسجدوں سے الله کی، یہ کہ ذکر کیا جائے بیچ ان کے نام اس کا اور سعی کرتا ہے بیچ ویران کرنے ان کے کہ یہ لوگ نہیں لائق تھا واسطے ان کے یہ کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے، واسطے ان کے بیچ دنیا رسوائی اور واسطے ان کے بیچ آخرت کے عذاب ہے بڑا۔‘‘
علامہ ابو سعود بن محمد العمادی حنفی اپنی تفسیر ابو سعود میں اس آیت کے تحت میں فرماتے ہیں:
’’وھذا الحکم عام لکل من فعل ذلک في أي مسجد کان، وإن کان سبب النزول فعل طائفة معینة في مسجد مخصوص‘‘ انتھی[1]
یہ کلمہ عام ہے۔ جو شخص جس مسجد سے منع کرے، وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہوگا۔ تفسیر مظہری میں ہے:
’’إنما أورد لفظ الجمع، وإن کان المنع واقعا علی مسجد واحد، لأن الحکم عام، وإن کان المورد خاصا‘‘ انتھی[2]
[اگرچہ یہ ممانعت ایک مسجد سے ہوئی تھی، لیکن اس کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیوں کہ اس کا حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے]
تفسیر جلالین میں ہے:
’’وسعیٰ في خرابھا بالھدم والتعطیل، نزلت إخبارا عن الروم الذین خربوا بیت المقدس، أو في المشرکین لما صدوا النبي صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیة عن البیت‘‘ انتھی[3]
[یعنی اسے گراکر اور ویران کر کے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آیت رومیوں کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے نازل ہوئی، جنھوں نے بیت المقدس کو ویران کر دیا تھا یا مشرکینِ مکہ کے متعلق، جنھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال بیت الله جانے سے روک دیا تھا]
امام حافظ الدین عبد الله بن احمد النسفی (متوفی ۷۰۱ھ) اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
’’وھو حکم عام لجنس مساجد اللّٰه ، وأن مانعھا من ذکر الله مفرط في الظلم، والسبب فیہ طرح النصاریٰ في بیت المقدس الأذی، ومنعھم الناس أن یصلوا فیہ أو منع المشرکین رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن یدخل المسجد الحرام عام الحدیبیة، وإنما قیل مساجد اللّٰه ، وکان المنع علیٰ مسجد واحد، وھو بیت المقدس أو المسجد الحرام، لأن الحکم ورد عاما، وإن کان السبب خاصا‘‘[4] انتھی
[یہ حکم ہر مسجد کو شامل ہے اور یقینا مساجد میں الله کے ذکر سے روکنے والا حددرجہ ظالم ہے۔ اس کا سبب نصاریٰ کا بیت المقدس میں گندگی پھینکنا اور لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکنا ہے یا مشرکین کا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ آیت میں جمع کا لفظ ’’مساجد اللّٰه ‘‘ ( الله کی مسجدیں) بولا گیا ہے، حالانکہ یہ ممانعت ایک مسجد بیت المقدس یا مسجد حرام سے ہوئی تھی، کیوں کہ یہ حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے]
خاتم المحدثین والمفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز۔ محدث دہلوی۔ قدس سرہ تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ ﴿٩﴾ عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ ﴿١٠﴾سورة العلق
’’کیا دیکھا تونے اس شخص کو جو منع کرتا ہے اور روکتا ہے بندے کو جب چاہتا ہے کہ نماز پڑھے۔‘‘
’’حق بندے کا یہی ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت ہاتھ اور پاؤں سے اور دل اور زبان سے بجا لائے اور ایسی عبادت جو ان سب باتوں کو جامع ہو، سوائے نماز کے نہیں ہے اور حق خدا کا یہ ہے کہ معبود ہو ہر عبادت میں، پھر اس منع کرنے والے نے بندے کا حق بھی تلف کیا اور خدا کا حق بھی تلف کیا تو اس کی سرکشی اور نافرمانی خدا سے اور اس کے بندوں سے بھی ثابت ہوئی ہے اور یہ شخص ابو جہل تھا۔ کئی مرتبہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدِ حرام میں نماز پڑھنے سے منع کیا تھا، بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر میں تجھ کو دیکھوں گا کہ اپنے متھے کو زمین پر رکھا ہے تو تیری گردن کاٹ ڈالوں گا۔ ہر چند یہ آیت اس لعین کے حق میں نازل ہوئی، لیکن اب بھی جو شخص الله تعالیٰ کی بندگی سے روکے اور منع کرے، وہ بھی اسی وعید اور برائی میں شامل ہے۔‘‘ انتہی
بے شک جس مسجد میں اِذن عام نہ ہو اور جمعہ کی نماز پڑھنے سے کسی کو روک دیا جائے، وہاں جمعہ مطابق مذہب حنفی کے درست نہیں، جیسا کہ اور شروط مثل وقتِ ظہر اور جماعت وغیرہ کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر کسی نے ظہر کے وقت سے پہلے یا بغیر جماعت کے جمعہ کی نماز پڑھی تو کسی طرح درست نہیں ہوگی، اسی طرح اِذن عام نہ پائے جانے سے بھی درست نہیں۔ در مختار میں ہے: ’’ویشترط لصحة الجمعة سبعة أشیاء۔۔۔ السابع: الإذن العام‘‘[5] انتھی ’’جمعہ کے صحیح ہونے کے واسطے سات چیزیں شرط ہیں، ساتویں شرط اذن عام ہے۔‘‘ ’’رد المحتار‘‘ حاشیہ در مختار میں ہے:
’’قولہ: الإذن العام أي أن یأذن للناس إذنا عاما بأن لا یمنع أحدا ممن یصح منہ الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلیٰ فیہ‘‘[6]انتھی
لوگوں کے واسطے عام اذن دے، بایں طور کہ کسی کو منع نہیں کرے کہ جس سے جمعہ صحیح ہو داخل ہو اس جگہ سے کہ جہاں نماز پڑھی جائے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ومنھا الإذن العام، وھو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافة، حتی أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع، وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسھم، وجمعوا، لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فإن فتح باب الدار، وأذن إذنا عاما، جازت صلاتہ، شھدھا العامة أو لم یشھدوھا، کذا في المحیط‘‘[7]
’’انھی شرطوں میں سے اذن عام ہے، وہ یہ ہے کہ جامع مسجد کے دروازے کو کھول دے اور سب لوگوں کو اذن عام دے، یہاں تک کہ اگر ایک جماعت جمع ہو جائے اور مسجد کے دروازے کو بند کر لیں اور جمعہ کی نماز پڑھیں تو نماز صحیح نہیں ہوگی، اسی طرح جب بادشاہ ارادہ کرے کہ لشکر کے ساتھ اپنے گھر میں جمعہ کی نماز پڑھے، پس اگر گھر کا دروازہ کھول دیا اور سب لوگوں کو اذن عام دیا تو نماز جائز ہوگی، لوگ حاضر ہوں یا نہ حاضر ہوں، ایسے ہی محیط میں ہے۔‘‘
’’شرح مواہب الرحمن لأدلة مذہب النعمان‘‘ میں ہے:
’’منھا الإذن العام وھو أن یفتح أبواب الجامع، ویؤذن للناس، حتی لو اجتمعوا جماعة في الجامع، وأغلقوا الأبواب، وجمعوا لم یجز، وکذا السلطان إذا أراد أن یصلي بحشمہ في قصرہ، فإن فتح بابہ، وأذن الناس إذنا عاما، جازت صلاتہ، شھدتھا العامة أو لا، وإن لم یفتح بابہ و لم یأذن لھم بالدخول لا یجزئه ‘‘ انتھی
[جمعے کی شروط میں سے اِذنِ عام (عام اجازت) ہے، یعنی جامع مسجد کے دروازوں کو کھول دے اور لوگوں کو آنے کی اجازت دے، حتی کہ اگر ایک جماعت اکٹھی ہو کر جامع مسجد میں دروازے بند کر کے جمعہ پڑھ لے تو ایسا جمعہ جائز نہیں ہے، اسی طرح بادشاہ اگر اپنے محل میں اپنے لوگوں کو لے کر نماز پڑھے تو اگر وہ دروازے کھول کر لوگوں کو آنے کی عام اجازت دے دے تو اس کی نماز صحیح ہے، عام لوگ آئیں یا نہ آئیں، لیکن اگر اپنا دروازہ نہیں کھولتا اور لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تو اس کا جمعہ نہیں ہوگا]
کافروں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا حنفی مذہب میں درست ہے، جیسا کہ خاتم المفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’وامام اعظم رحمہ اللہ میگویند کہ در آمدن کا فر در ہمہ مساجد درست است زیراکہ در زمان سعادت نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہمان را گو کافر بودند در مسجد فروکش میکنانیدند چنانچہ وفد ثقیف را ودگر وفود را و نیز بتواتر معلوم ست کہ برائے ملاقات آنحضرت علیہ السلام یہودیان و نصاریٰ و مشرکی بے طلب اذن و پروانگی در مسجد می آمدند و می نشستند و ثمامہ بن اثال حنفی را آنحضرت علیہ السلام در حالت کفر بستونے از ستو نہائے مسجد بستہ گزاشتہ بو دند و ناسخ ایں عمل مستمر آنحضرت علیہ السلام ہم وارد نشدہ‘‘ انتھی
[امام اعظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کا ہر مسجد میں آنا درست ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت نشان میں مہمان کو، اگرچہ وہ کافر ہی ہوتا ہے، مسجد میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ چنانچہ وفدِ ثقیف اور دیگر وفود مسجد ہی میں فروکش ہوتے تھے۔ نیز تواتر کے ساتھ یہ معلوم ہے کہ یہودی، نصرانی اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے اذن و اجازت طلب کیے بغیر مسجد میں آتے اور بیٹھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال حنفی کو حالتِ کفر میں مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس متواتر سنت اور طریقے کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز بھی وارد نہیں ہوئی ہے]
ہدایہ میں مرقوم ہے کہ قبیلہ ثقیف کے جو سفیر آئے تھے اور وہ کفار تھے، ان کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد میں اتارا تھا۔[8]
تفسیر ابو السعود اور تفسیر مظہری و دیگر کتب معتبرہ میں مرقوم ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو بھی اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے، جو مسلمان بھی نہ تھے، بلکہ عیسائی مذہب رکھتے تھے اور وہ لوگ مع افسر، جس کا نام عبد المسیح تھا، ساٹھ آدمی تھے۔ یہ سب لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ طیبہ میں مقامِ نجران سے سفیر آئے تھے، آپ کی مسجد میں داخل ہوئے، وہیں ان کی نماز کا وقت آگیا تو نماز پڑھنے کو کھڑے ہوگئے۔ بعض اشخاص حاضرین ان کے مزاحم ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو نماز پڑھنے کی اجازت دی اور ان بے جا مزاحمت کرنے والوں کو ان کی اس بے جا مز احمت سے روکا۔ انھوں نے حسبِ اجازت خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس مسجد میں اپنے طریقے کے مطابق رو بمشرق، یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔[9]
عجیب امر ہے کہ حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تو غیر مذہب والوں کو بھی اپنی مقدس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں اور اب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور منع کرتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟ یہ تعصب اور نفسانیت ہے۔ الله جل شانہ سب مسلمانوں کو نیکی کی توفیق دے اور نفسانیت اور تعصب اور ضد سے بچائے۔
[1] تفسیر أبي السعود (۱/ ۱۴۹)
[2] تفسیر المظھري (۱/ ۲۱۱)
[3] تفسیر الجلالین (ص: ۲۲)
[4] تفسیر النسفي (۱/ ۱۱۸)
[5] الدر المختار (۲/ ۱۳۷، ۱۵۱)
[6] رد المحتار (۲/ ۱۶۴)
[7] فتاویٰ عالم گیری (۱/ ۱۴۸)
[8] البنایةفي شرح الھدایة (۱/ ۳۷۶) نیز دیکھیں: نصب الرایة (۴/ ۳۳۵) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
[9] تفسیر أبي السعود (۲/ ۳) تفسیر المظھري (۲/ ۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب