سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) نماز تروایح کی رکعات

  • 22875
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1372

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  1۔ایک شخص نے نمازِ تراویح پڑھائی، چھ رکعت پڑھ کر تین وتر پڑھ لیے۔ کیا درست ہے یا نہیں؟ اس کے صواب یا ناصواب ہونے میں حدیث و آثار سے کیا مروی ہے؟

2۔  یہ نمازِ تراویح نمازِ تہجد ہے یا نہیں یا ایسی نماز ہے کہ رات کی نماز کہی جا سکے؟ اس کا حکم رات کی نماز کا سا، یعنی دو رکعت یا چار رکعت یا چھ رکعت پڑھ لینا درست ہے یا نہیں؟

3۔  جس طرح نمازِ وتر کے واسطے یہ حکم ہے کہ آخر رات میں پڑھی جائے، اگر کسی سے نہ ہوسکے تو اول رات میں پڑھ لے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نمازِ تراویح اس طرح پڑھے کہ نماز تہجد کی ہو بوجہ رمضان کے اور لوگوں کو مشقت و تکلیف میں نہ پڑنے اور ثواب سے نہ محروم رہنے کے لیے آپ نے اول رات میں اجازت فرمائی ہوں، جس طرح وتر کے لیے اول رات میں پڑھنے کی اجازت فرمائی؟ جواب قرآن و حدیث و آثار یا ائمہ محدثین سے ہو۔

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب:  ان سوالوں کا جواب رسالہ ’’رکعات التراویح‘‘ سے حاصل کیجیے، جو تیسری بار دہلی میں چھپا ہے۔[1]

بیس رکعت تراویح کا ثبوت[2]:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ قیامِ رمضان یعنی تراویح کسی حدیث صحیح مرفوع متصل الاسناد سے بیس رکعت کا پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے یا خلفاے اربعہ سے ثابت ہے یا نہیں اور برتقدیرِ عدمِ ثبوت پڑھنا بیس رکعت کا افضل ہے یا گیارہ رکعت کا؟

جواب:  ماہرینِ شریعت غرا پر مخفی نہ رہے کہ پڑھنا بیس رکعت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں، اس واسطے کہ صحیح حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا ہے، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں یا غیر رمضان میں زیادہ گیارہ رکعت (سے) نہیں پڑھتے تھے[3]۔ لیکن یہ روایت محمول ہے اوپر عادتِ غالبہ آنحضرت کے۔ اس لیے کہ رات کی نماز پڑھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے مختلف طور سے پایا گیا ہے۔ کبھی تیرہ، کبھی گیارہ، کبھی نو، کبھی سات، جیسا کہ مزاولانِ کتبِ صحاح ستہ پر مخفی نہیں ہے اور وہ جو روایت کیا ہے ابن ابی شیبہ وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے، سو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے:

1۔  اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، چنانچہ  اس امر کا اقرار ابن الہمام نے بھی ’’فتح القدیر‘‘ میں کیا ہے:

’’وأما ما روی ابن أبي شیبة والطبراني، وعنہ البیھقي، من حدیث ابن عباس أنہ صلی اللہ علیہ وسلم  یصلي في رمضان عشرین رکعة سوی الوتر فضعیف بأبي شیبةإبراھیم بن عثمان جد الإمام أبي بکر بن أبي شیبة متفق علی ضعفہ مع مخالفتہ للصحیح‘‘[4]انتھی ما في فتح القدیر۔

[لیکن وہ روایت جس کو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور جو امام بیہقی کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت (تراویح) پڑھتے تھے تو یہ روایت امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔  چنانچہ  اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ نیز اس میں صحیح کی مخالفت کا عیب بھی پایا جاتا ہے]

2۔  دوسرے یہ کہ یہ روایت ہی مخالف اس حدیث کی ہے، جس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے وھو ھذا:

’’عن جابر أنہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صلّٰی بھم في رمضان ثمان رکعات والوتر‘‘[5]کذا في تخریج الھدایة للحافظ ابن حجر العسقلاني۔

[جابر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھایا]

علی ہذا القیاس بیس رکعت کا پڑھنا خلفاے اربعہ سے بھی ثابت نہیں ہوا۔ ہاں بعض روایت سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، جیسا کہ روایت سائب بن یزید سے جو امام بیہقی نے کتاب المعرفہ میں روایت کیا ہے،[6]معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس سے پڑھنا بیس رکعت کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا نہیں ثابت ہوتا، ہاں رضائے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ ثابت ہوتی ہے اور یہ روایت مخالف ہے اس کے، جو امام مالک نے موطا میں سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں سائب بن یزید کہ حکم کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو کہ نمازِ تراویح کی پڑھائیں وہ دونوں لوگوں کو گیارہ رکعت،[7] پس مطابقت دونوں روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں لوگ مختلف تھے، کبھی بیس رکعت پڑھتے تھے اور کبھی گیارہ۔ باقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع کرنا گیارہ رکعت ہی پر ثابت (ہے)۔ پس اگر کوئی کبھی بیس رکعت پڑھ لے تو اس پر انکار نہیں پہنچتا۔ ہاں گیارہ کا پڑھنا بہ نسبت بیس کے اولیٰ اور افضل ہے، اس واسطے کہ یہی ہے نماز رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  اور اُن کے خلفا کی، پس اتباع ساتھ سنتِ رسول الله اور سنتِ خلفا کے نیک (ٹھیک) ہے۔

قال   الله تعالیٰ:لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴿٢١ [الأحزاب]

[  الله تعالیٰ نے فرمایا:  بلاشبہ یقینا تمھارے لیے الله کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے]

وقال النبي: (( علیکم بسنتي وسنۃ الخلفائِ الراشدین المھدیین ))  [8] الحدیث۔

[نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کے طریقے کو اختیار کرو]

الغرض بیس رکعت کا پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ التزام نہ کرے، اس لیے کہ مباح شَے کے التزام کرنے سے وہ شَے بدعت ہوجاتی ہے۔ پس اس زمانے میں جو لوگوں نے بیس ہی کا التزام کر لیا ہے بدعت ہوگا۔

’’قال عبد   الله رضی اللہ عنہ : لا یجعل أحدکم للشیطان نصیباً من صلاتہ یری حقا علیہ ألا ینصرف إلا عن یمینہ، ولقد رأیت رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کثیراً ینصرف عن یسارہ[9] رواہ مسلم و ابن ماجہ، وقال الطیبي: فیہ إن من أصر علی أمر مندوب وجعل عرفا ولم یعمل بالرخصة فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف علی من أصر علی بدعة أو منکر‘‘[10]کذا في حاشیۃ ابن ماجہ۔

[عبد  الله رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے۔ (وہ اس طرح) کہ صرف دائیں طرف سے گھومنا (  الله کا حق اور اپنا) فرض سمجھ لے۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  کو اکثر بائیں طرف سے گھومتے دیکھا ہے۔ اس کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں طیبی رحمہ اللہ  نے کہا ہے: یقینا جس نے مندوب امر پر اصرار کیا اور اس کو عرف بنا دیا اور رخصت پر عمل نہ کیا تو شیطان نے اسے گمراہ کر دیا تو اس وقت کیا حال ہوگا، جب وہ کسی بدعت اور منکر کام پر اصرار کرے؟


[1]              یہ رسالہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری کے دیگر رسائل کے ساتھ عن قریب طبع ہوگا۔ ان شاء اﷲ

[2]              فتاویٰ مولانا ابو المکارم مئوي (ص: ۲۶)

[3]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۰۹۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۳۸)

[4]              فتح القدیر (۱/ ۴۶۷)

[5]              صحیح ابن خزیمة (۲/ ۱۳۸) صحیح ابن حبان (۶/ ۱۶۹)

[6]                معرفة السنن والآثار (۴/ ۴۲)

[7]                موطأ الإمام مالک (۱/ ۱۱۵) معرفة السنن والآثار (۴/ ۴۲)

[8]              سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۷۶)

[9]              صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۰۷) سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۹۳۰)

[10]             حاشیہ سنن ابن ماجه (ص: ۶۶)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:241

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ