سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) کیا ولد الحرام سردار اور امام بن سکتا ہے؟

  • 22870
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1054

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک شخص نے یکے بعد دیگرے ایامِ جاہلیت میں دو بہن کو شادی کر کے اپنی زوجیت میں رکھا۔ عورت ثانی کی طرف سے جو لڑکا پیدا ہوا، فن دنیاوی میں بہت ہوشیار، بوجہ مصلحت کے سردار اعلی نے ہمراہ امام جماعت کے چودھری سردار اس کو بھی مقرر کیا، بوجہ معین شریعت محمدیہ اور بندوبست امورِ دینیہ کے اب اختلاف ہے درمیان مسلمانوں کے اس بات پر کہ لڑکا حرامی جب محرومِ میراث ہے تو سرداری اس کی نادرست اور نماز اس کے پیچھے ناجائز اور عبادت اس کی فاسد۔ لہٰذا نزدیک محدثین عرض ہے کہ مطابق حکم   الله و رسول کے جواب تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص میں سرداری کی شرطیں پائی جائیں، اس کی سرداری درست ہے اور حرامی ہونا ایسی سرداری کا مانع نہیں ہے، جس کی نسبت سوال ہے۔ ہاں امام اعظم (یعنی امام عامہ مسلمین) ہونے کو البتہ مانع ہے، کیونکہ اس امامت میں قرشی ہونا شرط ہے اور حرامی شخص قرشی ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ شرع شریف میں نسب آبا سے معتبر ہے، نہ کہ امہات سے، تو اگر زانی شخص قرشی بھی ہو، تب بھی حرامی لڑکا قرشی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ زانی شخص شرعاً ولد الزنا کا باپ نہیں ہے کہ اس کے قرشی ہونے سے ولد الزنا بھی قرشی ہوجائے۔ بلوغ المرام ’’باب القضاء‘‘ میں ہے:

عن بریدة رضی اللہ عنه  قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( ألقضاة ثلاثة، اثنان في النار، وواحد في الجنة، رجل عرف الحق فقضیٰ به فھو في الجنة، ورجل عرف الحق فلم یقض به، وجار في الحکم فھو في النار، ورجل لم یعرف الحق فقضی للناس علی جھل فھو في النار )) [1](رواه الأربعة، و صححه الحاکم)              

’’بریدہ رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’حاکم تین طرح کے ہیں، دو دوزخی ایک جنتی، جس حاکم نے حق والے کا حق دریافت کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ بھی کیا، وہ حاکم جنتی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تو دریافت کر لیا، لیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کیا، بلکہ جان بوجھ کر حق کے خلاف فیصلہ کیا، وہ حاکم دوزخی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تک بھی دریافت نہیں کیا اور یوں ہی بے سمجھے بوجھے فیصلہ سنا دیا، وہ حاکم بھی دوزخی ہے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ذی علم اور سمجھ دار اور دیانت دار اور انصاف ور ہو۔ اگر ذی علم اور سمجھدار نہ ہو گا، تو حق و ناحق میں فرق نہ کر سکے گا اور اگر دیانت دار اور انصاف ور نہ ہوگا تو ٹھیک ٹھیک حق بحق فیصلہ نہ کرے گا۔ صحیح بخاری ’’کتاب الأحکام، باب متی یستوجب الرجل القضاء‘‘ میں ہے:

’’قال مزاحم بن زفر: قال لنا عمر بن عبد العزیز: خمس إذا أخطأ القاضي منھن خصلة کانت فیہ وصمة أن یکون فھما حلیما عفیفا صلیبا عالما سؤولا عن العلم‘‘[2]

’’مزاحم بن زفر نے کہا کہ ہم سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  نے فرمایا: پانچ خصلتیں ہیں کہ جن میں سے ایک سے بھی جب حاکم چوک جاتا ہے، یعنی ان میں سے کسی ایک خصلت کا بھی فاقد ہوتا ہے تو اس میں عیب ونقصان رہتا ہے: سمجھدار ہو، متحمل اور بردبار ہو، حرام سے بچنے والا ہو، مضبوط ارادے کا ہو، دوسرے کے حق میں سخت ہو، حق پر اڑ جانے والا ہو، کسی کے ساتھ رعایت کرنے والا نہ ہو۔ ذی علم ہو اور جو بات نہ جانتا ہو، اس کو ذی علموں سے پوچھ کر دریافت کرتا ہو۔‘‘

جس شخص میں نماز کی امامت کی شرطیں پائی جائیں، اس کی امامت درست اور اس کے پیچھے نماز جائز ہے اور حرامی ہونا مانع امامتِ نماز بھی نہیں ہے۔ مشکوۃ شریف ’’باب الإمامة‘‘  فصل اول میں ہے:

عن أبي مسعود رضی اللہ عنہ  قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب الله تعالیٰ، فإن کانوا في القراءة سواء فأعلمھم بالسنة، فإن کانوا في السنة سواء فأقدمھم ھجرة، فإن کانوا في الھجرة سواء فأقدمھم سنا)) [3] الحدیث (رواہ مسلم)

’’ابو مسعود رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: قوم کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں   الله تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید سب سے زیادہ پڑھا ہوا ہو۔ اگر قرآن مجید پڑھنے میں سب برابر ہوں تو وہ شخص ان کی امامت کرے جو ان میں حدیث زیادہ جانتا ہو۔ اگر حدیث دانی میں بھی سب برابر ہوں، تو وہ شخص امامت کرے جس نے ان میں ہجرت پہلے کی ہو، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو ان میں سن میں بڑا ہو۔‘‘

اسی فصل میں ہے:

’’عن أبي سعید قال: قال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إذا کانوا ثلاثة فلیؤمھم أحدھم وأحقھم بالإمامة أقرأ ھم )) [4] (رواہ مسلم)

’’ابو سعید رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب تین شخص ہوں تو ان میں سے ایک شخص امام ہو جائے تو جو ان میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے والا ہو، وہی شخص زیادہ مستحق امامت کا ہے۔‘‘

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ سب سے اول امامت کا مستحق وہ شخص ہے، جو قرآن مجید زیادہ پڑھنے والا ہو، وہ شخص کیسا ہی ہو، حرامی ہو یا حلالی۔ حرامی یا حلالی ہونے کی کچھ قید نہیں ہے۔ پس جو شخص قرآن مجید زیادہ پڑھنے والا ہو، وہ شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے۔ اسی طرح اگر اس میں سب برابر ہوں تو جو حدیث دان زیادہ ہو، وہی امامت كے مستحق ہے، خواہ وہ کوئی ہو۔ اسی طرح اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جو ہجرت میں پہلے ہو۔ اگر اس میں سب برابر ہوں، تو جو سن میں بڑا ہو۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری (۱/ ۳۸۷ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’وإلی صحة إمامة ولد الزنا ذھب الجمھور‘‘ اھ۔ ’’جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ولد الزنا کی امامت درست ہے۔‘‘ یہ کہنا کہ حرامی کی عبادت فاسد ہے، محض بے وجہ ہے۔   الله تعالیٰ سورت بقرہ میں فرماتا ہے:

بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨١ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨٢ [البقرۃ]

’’جس شخص نے بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اس کو گھیر لیا، پس وہ لوگ دوزخ والے ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، وہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدکاروں بے ایمانوں کے لیے دوزخ ہے اور ایمانداروں، نیکو کاروں کے لیے جنت ہے، اس میں کوئی قید حلالی یا حرامی کی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں۔ کہیں کی آیت میں ایسی قید نہیں ہے، جس سے حلالی اور حرامی میں عبادت کے صحیح اور فاسد ہونے میں فرق سمجھا جاتا ہو، علاوہ اس کے اس میں حرامی کا قصور ہی کیا ہے؟ قصور تو زانی اور زانیہ کا ہے اور شرع شریف میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ایک کے قصور پر دوسرا پکڑا جائے۔

قرآن مجید میں متعدد جگہوں میں فرمایا گیا ہے:﴿ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ [الأنعام: ﴿١٦٤]’’یعنی کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ اور جو ولد الزنا کے بارے میں یہ حدیث نقل کی جاتی ہے کہ (( لا یدخل الجنۃ ولد زنی )) [5]یعنی ولد الزنا جنت میں نہیں جائے گا۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس حدیث کا ایک راوی جابان نامی ہے۔ اولاً تو وہ مجہول ہے۔ ثانیاً وہ روایت کرتا ہے عبد  الله بن عمرو رضی اللہ عنہما  سے اور عبد  الله بن عمرو رضی اللہ عنہما  سے اس کو سماع نہیں ہے۔ ثالثاً اس کو نبیطہ سے سالم روایت کرتا ہے اور سالم کو نہ جابان سے سماع ہے نہ نبیطہ سے تو یہ حدیث کئی طرح سے منقطع ہے۔ حافظ ذہبی میزان الاعتدال (۱/ ۱۵۲) میں رقمطراز ہیں:

’’جابان عن عبد  الله بن عمرو لا یدریٰ من ھو، وقال أبو حاتم: لیس بجحة، وقال البخاري: قال لي الجعفي: نا وھیب سمع شعبة عن منصور عن سالم عن نبیطة عن جابان عن عبد  الله بن عمرو مرفوعاً: لا یدخل الجنة ولد زنی۔ تابعہ غندر، ولم یذکر جریر والثوري فیه نبیطة، وقال لي عبدان عن أبیه عن شعبة عن زید عن سالم عن عبد  الله بن عمرو قوله، قال البخاري: ولم یصح، ولا یعرف لجابان سماع من عبد  الله ولا لسالم من جابان‘‘ اھ۔

[جابان راوی، جو عبد  الله بن عمرو رضی اللہ عنہما  سے روایت کرتا ہے، اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے۔

ابو حاتم رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ وہ حجت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے کہا ہے: مجھے جعفی نے کہا: ہمیں وہیب نے بیان کیا ہے، اس نے شعبہ سے سنا، اس نے منصور سے روایت کیا، اس نے سالم سے، اس نے نبیطہ سے، اس نے جابان سے، اس نے عبد  الله بن عمرو رضی اللہ عنہما  سے مرفوعاً بیان کیا کہ ولد الزنا جنت میں نہیں جائے گا۔ غندر نے اس کی متابعت کی ہے، لیکن جریر اور ثوری نے اس کی سند میں نبیطہ کا ذکر نہیں کیا اور عبد  الله رضی اللہ عنہ  نے مجھے اپنے باپ سے روایت بیان کی، انھوں نے شعبہ سے روایت کیا، انھوں نے زید سے، انھوں نے سالم سے، انھوں نے عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما  سے ان کا قول روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے اور جابان کا عبد  الله رضی اللہ عنہ  سے اور سالم کا جابان سے سماع معلوم نہیں ہے]

تفسیر ابنِ کثیر (۳/ ۴۰۵ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’قال البخاري: لا یعرف لجابان سماع من عبد  الله بن عمرو، ولا لسالم من جابان ولا نبیطة‘‘ اھ۔ [امام بخاری رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ جابان کا عبد  الله بن عمر سے اور سالم کا جابان اور نبیطہ سے سماع ثابت نہیں ہے] ’’سفر السعادة‘‘ (ص: ۱۱۸ چھاپہ مصر ) میں ہے: ’’باب ولد الزنا، والمشھور من ذلک ولد الزنا لا یدخل الجنة، لم یثبت، بل ھو باطل‘‘ اھ۔ ’’ولد الزنا کے باب میں، جس میں سے یہ مشہور ہے کہ ولد الزنا جنت میں نہیں جائے گا، کچھ ثابت نہیں ہے، بلکہ اس باب میں جو کچھ مروی ہے، سب باطل ہے۔‘‘

حرامی مطلقاً محروم المیراث بھی نہیں ہے، اپنی ماں سے ضرور میراث پا سکتا ہے، گو زانی سے اس وجہ سے کہ شارع نے اس کو باپ نہیں قرار دیا ہے، میراث نہیں پاتا تو حرامی کو مطلقاً محروم المیراث کہنا بھی غلط ہے۔


[1]              سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۵۷۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۳۲۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۱۵) سنن النسائي الکبریٰ (۳/ ۴۶۱) المستدرک (۴/ ۹۰) بلوغ المرام (۱۳۹۷)

[2]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۷۴۴)

[3]                صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۷۳)

[4]                صحیح مسلم، رقم الحدیث (۶۷۲)

[5]              مسند أحمد (۲/ ۲۰۳) سنن النسائي الکبریٰ (۳/ ۱۷۵) سنن الدارمي (۲/ ۱۵۳) صحیح ابن حبان (۸/ ۱۷۵)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:233

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ