السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ولد الزنا کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا تؤجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولد الزنا کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث وارد نہیں ہے، بلکہ حدیث میں آیا ہے کہ امامت کے قابل (( أقرأھم لکتاب الله )) [1] [لوگوں میں سب سے زیادہ قرآنِ کریم کو پڑھنے والا] ہے تو اگر ولد الزنا میں اس بات کی صلاحیت ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اس کے ولد الزنا ہونے سے اس کے حق میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ بخاری شریف (پارہ سوم، ص: ۳۸۶ و ۳۸۷ مطبوعہ انصاری) میں ہے: ’’باب إمامة العبد والمولیٰ وولد البغي، لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : یؤمھم أقرأھم لکتاب اللّٰه ‘‘ انتھی ملخصاً [عبد، مولی اور ولدِ زنا کی امامت کا باب، کیونکہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ان کی امامت وہ کرائے جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو] فتح الباری (ص: ۳۸۷ مطبوعہ انصاری دہلی) میں ہے: ’’قولہ: وولد البغي أي الزانیة‘‘ انتھی [ان کے قول ’’ولد البغي‘‘ کا مطلب ہے زانیہ عورت کا بیٹا] نیز فتح الباری میں ہے:
’’قولہ: لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : (( یؤمھم أقرأھم لکتاب الله )) أي فکل من اتصف بذلک جازت إمامتہ، من عبد، وصبي، وغیرھما، وھذا طرف من حدیث أبي مسعود۔۔۔ وقد أخرجہ مسلم وأصحاب السنن بلفظ: (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب الله )) الحدیث‘‘[2]
[ان کا یہ قول کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ’’ان کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اس وصف کے ساتھ متصف ہوگا، اس کی امامت جائز ہے، خواہ وہ غلام ہو یا بچہ یا ان کے سوا کوئی دوسرا۔ یہ ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جسے امام مسلم اور اصحابِ سنن نے یوں روایت کیا ہے کہ قوم کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو]
وعبارة مسلم ھکذا: ’’حدثنا أبو بکر بن أبي شیبة و أبو سعید الأشج، کلاھما عن أبي خالد، قال أبوبکر: حدثنا أبو خالد الأحمر عن الأعمش عن إسماعیل بن رجاء عن أوس بن ضمعج عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللّٰه ، فإن کانوا في القراء ة سواء، فأعلمھم بالسنة، فإن کانوا في السنة سواء، فأقدمھم ھجرة، فإن کانوا في الھجرة سواء فأقدمھم سلما، ولا یؤمن الرجل الرجلَ في سلطانه، ولا یقعد في بیته علیٰ تکرمته إلا بإذنه )) قال الأشج في روایة مکان سلما: سنا‘‘
[صحیح مسلم میں اس حدیث کی عبارت اس طرح ہے: ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو سعید الاشج نے بیان کیا، ان دونوں نے ابو خالد سے روایت کیا، ابوبکر نے کہا کہ ہمیں ابو خالد الاحمر نے اعمش سے روایت کیا، انھوں نے اسماعیل بن رجاء سے، انھوں نے اوس بن ضمعج سے، انھوں نے ابو مسعود انصاری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کی امامت وہ کروائے جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو، پھر اگر وہ قرآن پڑھنے میں برابر ہوں تو وہ امامت کروائے جو لوگوں میں زیادہ سنت کا علم رکھنے والا ہو، پھر اگر وہ علمِ سنت میں برابر ہوں تو وہ جو ہجرت میں مقدم ہو، پھر اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں مقدم ہو۔ کوئی آدمی دوسرے کی حکومت (سربراہی) کی جگہ میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی خاص مسند ہی پر بیٹھے (جو اس کی عزت کی جگہ ہو) الا یہ کہ وہ اجازت دے۔ الاشج نے اپنی روایت میں ’’سلما‘‘ [اسلام] کی جگہ ’’سنا‘‘ [عمر] کا لفظ ذکر کیا ہے-
[1] فتح الباري (۲/ ۱۸۶)
[2] فتح الباري (۶/۱۸۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب