سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) اندھے کے پیچھے نماز کا حکم

  • 22868
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 905

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اندھوں کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کسی قسم کی کراہت تو نہیں واقع ہوتی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اندھے کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (( صلوا خلف کل بر و فاجر)) کما في الھدایة۔[1] [ہر نیک اور فاجر کے پیچھے نماز ادا کر لو۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے]

’’وفي فتح القدیر (۱/ ۱۲۶): وھذا الحدیث یرتقي إلی درجة الحسن عند المحققین وھو الصواب‘‘[2]  انتھی

[فتح القدیر میں ہے کہ یہ حدیث محققین کے نزدیک حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے اور یہی بات درست ہے]

وفي المشکاة (ص: ۹۲) في باب الإمامة: عن أبي مسعود رضی اللہ عنہ  قال: قال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( یؤم القوم أقرأھم لکتاب   الله تعالیٰ )) [3] الحدیث۔

[مشکات میں امامت کے باب میں ہے: ابو مسعود رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: قوم کی امامت وہ کرائے جو لوگوں میں سب سے زیادہ   الله تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنے والا ہو]

وعن أبي سعید رضی اللہ عنہ  قال: قال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إذا کانوا ثلاثة، فلیؤمھم أحدھم، وأحقھم بالإمامة أقرأھم )) [4] (رواہ مسلم)

[ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے۔ ان میں سے امامت کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے، جو ان میں (قرآن مجید کو) سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو]

وعن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  استخلف ابن أم مکتوم علیٰ المدینة مرتین یصلي بھم، وھو أعمیٰ۔ [1] (روہ أبو داؤد، وأخرجہ أیضاً ابن حبان في صحیحہ، و أبو یعلي والطبراني عن عائشة، وأخرجہ أیضاً الطبراني بإسناد حسن عن ابن عباس)

[انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبد  الله بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ  کو دو مرتبہ مدینے میں اپنا جانشین بنایا، چنانچہ یہی لوگوں کی امامت کراتے تھے اور یہ نابینا تھے]

وعن محمود بن الربیع أن عتبان بن مالک کان یؤم قومہ، وھو أعمی، وأنہ قال: یا رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم ! إنھا تکون الظلمة والسیل، وأنا رجل ضریر البصر، فصل یا رسول   الله في بیتي مکانا أتخذہ مصلی، فجاءه رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  فقال: (( أین تحب أن أصلي؟)) فأشار إلی مکان في البیت، فصلیٰ فیہ رسول  الله صلی اللہ علیہ وسلم ۔[2](رواہ البخاري والنسائي، نیل الأوطار طبع مصر: ۳۹/۳)          

[محمود بن ربیع رحمہ اللہ  سے مروی ہے کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ  اپنی قوم کی امامت کراتے تھے اور وہ نابینے تھے۔ انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ کبھی اندھیرا، بارش یا بارشی پانی ہوتا ہے اور میں نابینا شخص ہوں (ایسی حالت میں مسجد نہیں آسکتا) لہٰذا آپ میرے گھر میں ایک جگہ نماز ادا فرمائیں، جسے میں اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں۔ چنانچہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور فرمایا: تم کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ تو انھوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں   الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھی]


[1] ۔یہ حدیث ضعیف ہے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔

[2] ۔علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کی مفصل  تخریج کرنے کے بعد فرماتے ہیں:فقدتبين من هذا التجريح والتتبع لطرق الحديث  انها كلها واهية جداء كما قال الحافظ في التخليص(ص:125)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (673)

[4] ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث (672)

[5] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث(595)صحیح ابن حبان(5/506) المعجم الکبیر للطبراني

[6] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (415)صحیح مسلم رقم الحدیث (33)سنن النسائي رقم الحدیث (788)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:230

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ