سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) اگر امام کسی گناہ کا ارتکاب کرلے؟

  • 22864
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 746

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین محمدی و مفتیان شرع احمد ی ہر دونوں مسئلہ مندرجہ ذیل میں۔ مسئلہ اول یہ کہ اگر زید نے عمر و کو دیکھا کہ وہ اپنا ایک ہاتھ ایک اجنبی عورت کے کندھے پر اور ایک اپنا ہاتھ اس کے پستان پر رکھا ہوا کھڑا ہے تو پس جو فعل شنیع مذکور عمرو سے واقع ہونا پایہ ثبوت کو پہنچاہے آیا وہ زنا مجازی صغریٰ ہےیا زنا حقیقی کبریٰ ؟برتقدیر اول زید نے اپنے رؤیت پر چار گواہ نہ لا سکے تو زید قاذف ہو سکتا ہے یا نہیں؟مسئلہ ثانی یہ کہ بعد علم ارتکاب زنا مجازی صغریٰ کے عمروکو امام بناسکتےہیں یا نہیں ؟فقط حسبتاً اللہ ہر ایک مسئلہ مرقومہ بالا کا جواب مدلل بادلہ قویہ قرآن و صحیح حدیث اور اجماع صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے تحریر فرمائیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک میں نے سمجھا ہے یہ ہے کہ اس قسم کا فعل داعی زنا میں داخل ہے جواز قسم صغائر ذنوب ہیں جو نماز پڑھ لینے سے بھی معاف ہوجاتے ہیں اور اس زنا میں داخل نہیں ہے جو کبائرذنوب سے ہے جس کے ارتکاب سے اس کے مرتکب ہر حدزنا جاری کی جاتی ہے اور جس کی رویت پر چارگواہ نہ لانے سے قاذف پر حد قذف جاری کی جاتی ہے۔

﴿الَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبـٰئِرَ الإِثمِ وَالفَو‌ٰحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ... ﴿٣٢﴾... سورة النجم

(وہ لوگ جو بڑے گناہوں اوربے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر صغیرہ گناہ )

أي : لا يتعاطون المحرمات والكبائر ، وإن وقع منهم بعض الصغائر فإنه يغفر لهم ويستر عليهم ، كما قال في الآية الأخرى:( إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا ﴿٣١ ) [ النساء] . وقال هاهنا : (الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ ﴿٣٢سورة النجم ) وهذا استثناء منقطع ; لأن اللمم من صغائر الذنوب ومحقرات الأعمال

 . (حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے یعنی وہ محرمات کبائرمیں منہمک نہیں ہوتے اگر چہ ان سے صغائر کا ارتکاب ہوجاتا ہے توبلا شبہہ وہ ان کو بخش دیتا ہے اور ان پر پردہ ڈال دیتا ہے جیسا کہ اس نے دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچوگے جن سے تمھیں منع کیا جا تا ہے توہم تم سے تمھاری چھوٹی برائیاں دور کردیں گے اور تمھیں باعزت داخلے کی جگہ میں داخل کریں گے۔‘‘اور یہاں فرمایا :’’وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر صغیرہ گناہ ۔‘‘ یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔کیوں کہ "اللھم "صغیرہ گناہوں اور حقیر اعمال کو کہتے ہیں)

قال الإمام أحمد : حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر عن ابن طاوس ، عن أبيه ، عن ابن عباس قال : ما رأيت شيئا أشبه باللمم مما قال أبو هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : " إن الله تعالى كتب على ابن آدم حظه من الزنا ، أدرك ذلك لا محالة ، فزنا العين النظر ، وزنا اللسان النطق ، والنفس تمنى وتشتهي ، والفرج يصدق ذلك أو يكذبه " .[1] أخرجاه في الصحيحين ، من حديث عبد الرزاق ، به .

(امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا : ہمیں عبد الرزاق نے بیان کیا انھوں :ہمیں معمر نے خبردی وہ ابن طاؤس سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے انھوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے لمم کے اس سے زیادہ مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ پا کر رہے گا۔ فرماتے آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بولنا ہے دل تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔‘‘اسے بخاری و مسلم نے عبد الرزاق سے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیاہے

وقال ابن جرير : حدثنا محمد بن عبد الأعلى ، أخبرنا ابن ثور حدثنا معمر ، عن الأعمش ، عن أبي الضحى ; أن ابن مسعود قال : " زنا العينين النظر ، وزنا الشفتين التقبيل ، وزنا اليدين البطش ، وزنا الرجلين المشي ، ويصدق ذلك الفرج أو يكذبه ، فإن تقدم بفرجه كان زانيا ، وإلا فهو اللمم " [2] 

. وكذا قال مسروق ، والشعبي .

(ابن جریر نے کہا ہے ہمیں محمد بن عبد الاعلیٰ نے بیان کیا کہا ہمیں ابن ثورنے خبر دی کہا ہمیں معمرنے نیان کیا انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو الضحیٰ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا آنکھوں کا زنا دیکھا ہے ہونٹوں کا زنا بوسہ لینا ہے ہاتھوں کا زناچھونا ہے پاؤں کا زنا چلنا ہے شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کرتی ہے۔پس اگر اس نے شرم گاہ (شہوت ) کے ساتھ پیش رفت کی تو وہ زانی شمار ہو گا ورنہ یہ"لمم"ہوگا مسروق اور شعبی نے بھی ایسے ہی کہا ہے۔

وقال عبد الرحمن بن نافع - الذي يقال له : ابن لبابة الطائفي - قال : سألت أبا هريرة عن قول الله : ( إلا اللمم ) قال : القبلة ، والغمزة ، والنظرة ، والمباشرة ، فإذا مس الختان الختان فقد وجب الغسل ، وهو الزنا .[3]

(عبد الرحمٰن بن نافع نے جن کو ابن لبابہ طائمی کہا جا تا ہے کہا میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’مگر صغیرہ گناہ‘‘سے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: اس سے مراد بو سہ د کنار کرنا ہاتھ پھیرنا دیکھنا اور جسم ملانا (معانقہ وغیرہ کرنا)ہے۔ پھر جب شرم گاہ شرم گاہ سے مل جائے تو پھر غسل واجب ہو جاتا ہے اور یہی زنا ہے)

﴿وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ طَرَفَىِ النَّهارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيلِ إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ ...﴿١١٤﴾... سورة هود

(اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کراور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔)

وقوله : ( إن الحسنات يذهبن السيئات ) يقول : إن فعل الخيرات يكفر الذنوب السالفة ، كما جاء في الحديث الذي رواه الإمام أحمد وأهل السنن ، عن أمير المؤمنين علي بن أبي طالب قال : كنت إذا سمعت من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حديثا نفعني الله بما شاء أن ينفعني منه ، وإذا حدثني عنه أحد استحلفته ، فإذا حلف لي صدقته ، وحدثني أبو بكر - وصدق أبو بكر - أنه سمع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : " ما من مسلم يذنب ذنبا ، فيتوضأ ويصلي ركعتين ، إلا غفر له[4] " .وفي الصحيحين عن أمير المؤمنين عثمان بن عفان : أنه توضأ لهم كوضوء رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ثم قال : هكذا رأيت رسول الله يتوضأ ، وقال : " من توضأ نحو وضوئي هذا ، ثم صلى ركعتين لا يحدث فيهما نفسه ، غفر له ما تقدم من ذنبه[5] " .وروى الإمام أحمد ، وأبو جعفر بن جرير ، من حديث أبي عقيل زهرة بن معبد : أنه سمع الحارث مولى عثمان يقول : جلس عثمان يوما وجلسنا معه ، فجاءه المؤذن فدعا عثمان بماء في إناء أظنه سيكون فيه قدر مد ، فتوضأ ، ثم قال : رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يتوضأ وضوئي هذا ، ثم قال : " من توضأ وضوئي هذا ، ثم قام فصلى صلاة الظهر ، غفر له ما كان بينه وبين صلاة الصبح ، ثم صلى العصر غفر له ما بينه وبين صلاة الظهر ، ثم صلى المغرب غفر له ما بينه وبين صلاة العصر ، ثم صلى العشاء غفر له ما بينه وبين صلاة المغرب ، ثم لعله يبيت يتمرغ ليلته ، ثم إن قام فتوضأ وصلى الصبح غفر له ما بينها وبين صلاة العشاء ، وهن الحسنات يذهبن السيئات " . [6]

 (حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا اس کا یہ فرمان :’’بلا شبہہ نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں ۔‘‘ اس میں وہ یہ کہتا ہے کہ بے شک نیک کام گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جس طرح حدیث میں ہے جسے اہل سنن نے روایت کیا ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو بھی مسلمان کوئی گناہ کر لیتا ہے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو اسے بخش دیا جا تا ہے۔اور بخاری و مسلم میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے لوگوں کے سامنے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  والا وضو کیا اور فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایسے وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا ’’جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے ۔ پھر دورکعت نماز پڑھے ایسے کہ ادھراُدھر کے خیالات میں مشغول نہ ہو تو اللہ اس کے سابقہ گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘ امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا تھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے اس وضو کی طرح وضوکیا تھا اور پھر فرمایا تھا جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے ۔پھر وہ کھڑا ہو اور ظہرکی نماز ادا کرے تو اس نماز اور فجر کی نماز کے درمیان ہونے والے گناہ بخش دیے جاتے ہیں پھر وہ عصر کی نماز پڑھے تو اسے اس نماز اور ظہر کی نماز کے درمیان ہونے والے گناہ بخش دیے جاتے ہیں پھر وہ عشاء کی نماز پڑھے تو اس نماز اور مغرب کی نماز کے درمیان ہونے والے اس کے گناہ بخش دیےجاتے ہیں پھر شاید وہ لوٹ پوٹ ہو کر رات گزار ے ۔پھر اٹھ کھڑا ہو ،وضو کرے اور صبح کی نماز ادا کرے اسے اس کے اور عشاء کی نماز کے درمیان ہونے والے گناہ بخش دیے جاتے ہیں یہی وہ نیکیاں ہیں جو گناہوں کو مٹا دیتی ہیں)

وفي الصحيح عن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال : " أرأيتم لو أن بباب أحدكم نهرا غمرا يغتسل فيه كل يوم خمس مرات ، هل يبقي من درنه شيئا ؟ " قالوا : لا يا رسول الله : قال : " وكذلك الصلوات الخمس ، يمحو الله بهن الذنوب والخطايا " .[7]

(صحیح میں ہے کہ بلا شبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر ہو اور وہ ہر روز اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہ جائے گی؟

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے عرض کی نہیں اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : پانچ نمازیں بھی ایسے ہی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذریعےگناہ اور خطائیں مٹادیتا ہے)

وقال مسلم في صحيحه : حدثنا أبو الطاهر وهارون بن سعيد قالا حدثنا ابن وهب ، عن أبي صخر : أن عمر بن إسحاق مولى زائدة حدثه عن أبيه ، عن أبي هريرة; أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يقول : " الصلوات الخمس ، والجمعة إلى الجمعة ، ورمضان إلى رمضان ، مكفرات ما بينهن إذا اجتنبت الكبائر [8]

(صحیح مسلم میں ہے کہ بے شک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کہا کرتے تھے :’’جب کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو پانچ نمازیں جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ہونے والے (صغیرہ ) گناہوں کا کفارہ ہیں‘‘)

وقال البخاري : حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يزيد بن زريع ، عن سليمان التيمي ، عن أبي عثمان النهدي ، عن ابن مسعود; أن رجلا أصاب من امرأة قبلة ، فأتى النبي - صلى الله عليه وسلم - فأخبره ، فأنزل الله : ( وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴿١١٤سورة هود ) فقال الرجل : إلى هذا يا رسول الله ؟ قال : " لجميع أمتي كلهم " .[9]

(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت کا بوسہ لے لیا پھر اس نے آکر نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:’’دن کے دونوں کناروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھو۔‘‘تو اس شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ میرے لیے خاص ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : میری ساری امت کے لیے ہے)

عن ابن مسعود قال : جاء رجل إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال : يا رسول الله ، إني وجدت امرأة في بستان ، ففعلت بها كل شيء ، غير أني لم أجامعها ، قبلتها ولزمتها ، ولم أفعل غير ذلك ، فافعل بي ما شئت . فلم يقل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - شيئا ، فذهب الرجل ، فقال عمر : لقد ستر الله عليه ، لو ستر على نفسه . فأتبعه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بصره ثم قال : " ردوه علي " . فردوه عليه ، فقرأ عليه : ( وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴿١١٤سورة هود ) فقال معاذ ، وفي رواية عمر : يا رسول الله ، أله وحده ، أم للناس كافة ؟ فقال : " بل للناس كافة " .[10]

(ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس شخص نے کہا میں نے باغ میں ایک عورت کو پا یا میں نے اس کے ساتھ سب کچھ کیا صرف اس سے جماع نہیں کیا میں نے اس کا بوسہ لیا اور اس سے چمٹ گیا پس آپ میرے ساتھ جو چاہیں کریں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ شخص چلا گیا ۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی کاش وہ بھی اپنی پردہ پوشی کرتا ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے پیچھے اپنی نگاہ لگائی ۔پھر کہا:اسےمیرے پاس واپس لاؤلوگ اس کو واپس لے آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پڑھا :’’دن کے دونوں کناروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھو۔‘‘معاذ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا یہ صرف اسی کے لیے ہے؟تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لیے ہے۔

وقال ابن جرير : حدثني عبد الله بن أحمد بن شبويه ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، حدثني عمرو بن الحارث حدثني عبد الله بن سالم ، عن الزبيدي ، عن سليم بن عامر; أنه سمع أبا أمامة يقول : إن رجلا أتى النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال : يا رسول الله ، أقم في حد الله - مرة أو ثنتين - فأعرض عنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ثم أقيمت الصلاة ، فلما فرغ النبي - صلى الله عليه وسلم - من الصلاة قال : " أين هذا الرجل القائل : أقم في حد الله ؟ " قال : أنا ذا : قال : " أتممت الوضوء وصليت معنا آنفا ؟ " قال : نعم . قال : " فإنك من خطيئتك كما ولدتك أمك ، ولا تعد " . وأنزل الله على رسول الله ، صلى الله عليه وسلم: ( وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ﴿١١٤سورة هود) .[11]

(ابن جریر نے ابو اسامہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !مجھ پر اللہ کی حد نافذ کریں۔ اس نے ایک یادو مرتبہ ایسے کہا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے اعراض کیا پھر نماز ادا کی گئی جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز سے فارغ ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا وہ آدمی کہا ہے ؟اس نےعرض کی۔ میں حاضر ہوں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کیا تونے مکمل وضو کر کے ہمارے ساتھ نماز ادا کی ہے؟ اس نے کہا :  کہا جی ہاں!آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : تو اس دن کی طرح اپنے گناہ سے پاک ہو گیا جس دن تیری ماں نے تجھے جنم دیاتھا لہٰذا دوبارہ ایسانہ کرنا۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’دن کے دونوں کناروں اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھو۔‘‘)

جب آیات و احادیث و آثار مذکورہ بالا سے ظاہر ہوا کہ اس قسم کا فعل صغائر ذنوب سے ہے تو اگر ایسے فعل کا مرتکب اس فعل پر مصر نہ ہو تو اس کو امام بنا سکتے ہیں ورنہ نہیں کیونکہ اصرار سے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ ہو جا تا اور اس کا مرتکب فاسق ہو جا تا ہے۔اور فاسق کو امام نہیں بنا سکتے ۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔


[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (5889)صحیح مسلم رقم الحدیث (2657)

[2] ۔تفسیر الطبري (252/11)

[3] ۔تفسیر ابن کثیر(326/4)

[4] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (1521)سنن النسائی الکبری(110/6)سنن الترمذي رقم الحدیث (3006)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1395)

[5] ۔صحیح بخاري رقم الحدیث (1832)صحیح مسلم رقم الحدیث (226)

[6]  مسند احمد (81/1)

[7] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث( 505)صحیح مسلم رقم الحدیث (667)

[8] ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث (233)

[9] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(503) صحیح مسلم رقم الحدیث (2763)

[10] ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث (2763)

[11] ۔تفسیر ابن جریر (124/7)وانظر تفسیر ابن کثیر(606/2)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:223

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ