سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) نماز میں بھول چوک اور سجدہ سہو

  • 22860
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2008

سوال

(95) نماز میں بھول چوک اور سجدہ سہو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

: 1۔  امام نے ظہر کی نماز فرض میں چار رکعت کی نیت کر کے تحریمہ باندھا اور سہواً امام نے پانچ رکعت پڑھا اور آخر میں سجدہ سہو کیا تو نماز جائز ہوئی یا فاسد ہوئی؟

2۔  امام عصر کی نماز فرض میں تشہد اول بھول کر سیدھا کھڑا ہوگیا، تب یاد آیا کہ قعدہ اولیٰ بھول گئے، پھر بیٹھ گیا اور تشہد ادا کیا اور دو رکعت پورا کیا، پھر سجدہ سہو کر کے تمام کیا۔ آیا نماز صحیح ہوئی یا فاسد؟ جواب قرآن مجید یا صحیح حدیثوں سے تحریر فرمائیں۔

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ نماز جائز ہوئی۔ صحیح بخاری مع فتح الباری (۱/ ۶۳۶ چھاپہ دہلی) میں ہے:

’’باب إذا صلی خمسا۔ حدثنا أبو الولید قال: حدثنا شعبة عن الحکم عن إبراھیم عن علقمة عن عبد   الله أن رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  صلیٰ الظھر خمسا، فقیل لہ: أزید في الصلاة؟ فقال: ((وما ذاک؟ )) قال: صلیت خمسا، فسجد سجدتین بعد ما سلم‘‘[1]و  الله أعلم بالصواب

[باب: جب وہ پانچ رکعتیں پڑھ جائے ہمیں ابو الولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے حَکم سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے اور انھوں نے عبد  الله بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو سجدے کیے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سلام پھیر چکے تھے]

2۔  حدیث شریف میں یہ تو آیا ہے کہ جب مصلی قعدہ اولیٰ بھول کر سیدھا کھڑا ہوجائے تو پھر نہ بیٹھے۔ حدیث مذکور یہ ہے:

’’عن ابن بحینة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  صلیٰ فقام في الرکعتین فسبحوا بہ، فمضیٰ، فلما فرغ من الصلاة سجد سجدتین، ثم سلم‘‘[2](رواہ النسائي)

[ابن بحینہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو دو رکعتوں کے بعد (بھول کر) کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے ’’سبحان  اللّٰه ‘‘ کہا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جاری رکھی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا]

وعن زیاد بن علاقة صلیٰ بنا المغیرة بن شعبة، فلما صلیٰ رکعتیں، قام ولم یجلس، فسبح من خلفہ، فأشار إلیھم أن قوموا، فلما فرغ من صلاتہ، سلم، ثم سجد سجدتین، وسلم، وقال: ھکذا صنع بنا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘[3]  (رواہ أحمد والترمذي وصححہ)

[زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  نے ہمیں نماز پڑھائی، جب انھوں نے دو رکعتیں پڑھا لیں تو اس کے بعد وہ کھڑے ہوگئے (تشہد کے لیے) نہیں بیٹھے۔ پیچھے سے لوگوں نے ’’سبحان  اللّٰه ‘‘ کہا تو انھوں نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ کھڑے ہو جاؤ، پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو انھوں نے سلام پھیرا پھر دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔ اس کے بعد فرمایا کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمارے ساتھ یہی کیا تھا]

وعن المغیرة بن شعبة قال: قال رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إذا قام أحدکم من الرکعتین فلم یستتم قائماً فلیجلس، وإن استتم قائما فلا یجلس، وسجد سجدتي السھو )) [4](رواہ أحمد و أبو داؤد و ابن ماجہ، منتقیٰ الأخبار)   

[مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دو رکعتوں میں کھڑا ہو جائے۔ اگر تو وہ ابھی سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو وہ بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو چکا ہو تو پھر نہ بیٹھے، بلکہ سہو کے دو سجدے کرے]

اور یہ کسی حدیث میں صاف اور صریح طور سے نہیں آیا ہے کہ اگر سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جائے تو نماز فاسد ہوجائے گی یا نہیں فاسد ہوگی۔ اسی وجہ سے اس مسئلے میں علماء میں اختلاف پڑ گیا ہے۔ حنفی مذہب میں اس مسئلے میں دو قول ہیں۔ ایک یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ نہیں فاسد ہوگی۔ در مختار میں ہے:

’’فلو عاد إلی القعود بعد ذلک (أي بعد ما استقام قائما، رد المحتار، ص: ۵۴۹) تفسد صلاتہ، وصححہ الزیلعي، وقیل: لا تفسد، وھو الأشبہ کما حققہ الکمال، و ھو الحق۔ بحر‘‘[5]اھ۔

[پھر اگر وہ بیٹھ جائے، (یعنی سیدھا کھڑے ہونے کے بعد۔ رد المختار، ص: ۵۴۹) تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ زیلعی نے اس موقف کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی زیادہ صحیح بات ہے، جیسا کہ علامہ کمال نے اس کی تحقیق کی ہے اور یہی حق ہے]

شافعی مذہب میں اگر عمداً پھر بیٹھ جائے گا تو نماز باطل ہو جائے گی اور جمہور کے نزدیک باطل نہیں ہو گی۔ فتح الباری (۱/ ۶۳۶ چھاپہ دہلی) میں ہے:

’’من سھا عن التشھد الأول حتی قام إلی الرکعۃ، ثم ذکرہ لا یرجع، فقد سبحوا بہ صلی اللہ علیہ وسلم  فلم یرجع، فلو تعمد المصلي الرجوع بعد تلبسہ بالرکن، بطلت صلاتہ عند الشافعي، خلافا للجمھور‘‘ اھ۔

[جو شخص پہلا تشہد بھول جائے اور (تیسری) رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر اسے (حالتِ قیام میں) یاد آجائے تو اب وہ نہ بیٹھے۔ ایسی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے ’’سبحان  اللّٰه ‘‘ کہا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (تشہد میں) نہ بیٹھے۔ پھر اگر وہ رکن میں لگ جانے کے بعد (تشہد کی طرف) پلٹنے کا قصد کرے گا تو جمہور کے برخلاف امام شافعی رحمہ اللہ  کے نزدیک اس کی نماز باطل ہوجائے گی]

حضرت شاہ ولی   الله رحمہ اللہ  ’’حجۃ   الله البالغۃ‘‘ (ص: ۲۱۱ ) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’فإن رجع لا أحکم ببطلان صلاتہ‘‘ اھ۔ یعنی اگر پھر بیٹھ جائے تو میں بطلانِ نماز کا حکم نہیں دوں گا۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ  ’’نیل الأوطار‘‘ (۲/ ۳۷۱) میں فرماتے ہیں:

’’فإن عاد عالما بالتحریم، بطلت لظاھر النھي، ولأنہ زاد قعودا، وھذا إذا تعمد العود، فإن عاد ناسیا لم یبطل صلاتہ‘‘ اھ۔

یعنی اگر پھر بیٹھ جائے اور یہ جانتا ہو کہ پھر بیٹھ جانا حرام ہے تو نماز باطل ہوجائے گی ظاہر نہی کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ اس نے ایک قعود زیادہ کر دیا اور نماز کا بطلان اس صورت میں اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ عمداً بیٹھ جائے اور اگر بھول کر بیٹھ جائے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔

یہی قول اَقرب اِلی الصواب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً ثابت ہوچکا کہ سیدھا کھڑا ہو جانے کے بعد پھر نہ بیٹھے اور اس صورت میں پھر بیٹھنے سے جس کی صریح نہی آچکی تو جو شخص بعد علم اس نہی کے عمداً پھر اس کام کو کرے، یعنی عمداً پھر بیٹھ جائے تو  بلاشبہ اس پر یہ بات صادق آئے گی کہ اس نے ایسا کام کیا، جس کا حکم اس کو منجانب شارع نہ تھا، یعنی اس نے خلافِ قانونِ شرع یہ کام کیا اور صحیحین میں ہے:

(( من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [6]

’’یعنی جو شخص ایسا کام کرے، جس کا حکم اس کو منجانب شارع نہ ہو، یعنی وہ کام خلافِ قانون شرع ہو، وہ کام مردود ہے‘‘ یعنی شرعاً نا مقبول و نامعتبر و باطل ہے اور جب وہ کام شرعاً نا مقبول و نامعتبر و باطل ہوا تو اس کے فاسد ہونے میں کیا شبہہ رہا اور اس کام کے خلافِ قانونِ شرع ہونے سے اس نماز پر بھی، جس میں یہ کام کیا گیا، یہ صادق آیا کہ وہ نماز خلافِ قانون شرع پڑھی گئی تو بحکم حدیثِ صحیحین مذکورہ بالا وہ نماز ہی شرعاً نا مقبول و نامعتبر و فاسد ہوگئی، لیکن جو شخص اس کام کو بلا علم نہی مذکورہ بالا کے یا بھول کر کرے، اس کی نماز فاسد ہونے کی کوئی وجہ ظاہر نہیں ہے۔


[1]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۱۶۸)

[2]              سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۱۷۸)

[3]              مسند أحمد (۴/ ۲۴۷) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۳۷) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۶۵)

[4]                مسند أحمد (۴/ ۲۵۳) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۳۶) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۲۰۸)

[5]              الدر المختار (۲/ ۸۴)

[6]                صحیح البخاري معلقاً، رقم الحدیث (۶۹۱۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۱۸)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:215

محدث فتویٰ

تبصرے