السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کیلیے بالوں کے سرو ں کو کاٹنا کیسا ہے ۔ عورت کیلیے بھنوؤں(آبرو) کے درمیان بالوں کے نکالنے کا کیا حکم ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ باقی دھاتوں کے زیورات کا کیا حکم ہے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!آپ کا سوال تین حصوں پر مشتمل ہے،جن کا ترتیب وار جواب درج ذیل ہے: ۱۔مسلمان عورتوں کے لیے سر کے بال لمبے رکھنا واجب ہے اور بلا عذر و ضرورت مونڈوانا یا کٹوانا حرام ہے۔ سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں: "عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں حضرت علیسے روایت کیا ہے کہ «نهي رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا» سنن النسائي:۵۰۵۲ "نبی کریمﷺ نے عورت کو سرمونڈنے سے منع کیا ہے۔ان احادیث میں نبی کریمﷺ سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔ ملا علی قاری "المرقاة شرح مشکوٰة" میں فرماتے ہیں :" عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے، کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔ (مجموع فتاویٰ فضیلة الشیخ محمد إبراہیم :۲/۴۹) اگرمقصدزینت کے بغیر فقط ضرورت کی وجہ سے بال کاٹے جائیں مثلاً زیادہ لمبے ہوجائیں اور ان کو سنوارنا مشکل ہوجائے وغیرہ تو بقدر ضرورت کاٹ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد ترک زینت اور لمبے بالوں سے استغنائیت کی بنا پر بعض اُمہات المومنین ایسے کرلیا کرتی تھیں۔ اگر بال کاٹنے کا مقصد کافر و فاسق عورتوں یا مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہو تو بلا شک یہ حرام عمل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے عمومی طور پر کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔(مجمع الزوائد)اور اگر مقصد زیب و زینت ہو تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ عمل تب بھی ناجائز ہے۔ الشیخ محمدامین الشنقیطی، اضواء البیان میں فرماتے ہیں: متعدد مسلم ممالک میں عورتوں کا اپنے سر کے بالوں کو جڑوں کے قریب تک کاٹ لینے کا جو رواج عام ہوچکا درحقیقت یہ فرنگی طرز زندگی ہے جو مسلمان عورتوں اور اسلام سے قبل عرب عورتوں کے طریقہ کے خلاف ہے، یہ رواج ان عمومی انحرافات میں سے ہے جو دین، تخلیق، اخلاق اور کردار کو متاثر کررہا ہے۔ پھر اس حدیث«أنَّ أزْوَاجَ النَّبِیِّ يَأخُذْنَ مِنْ رُؤوْسِهِنَّ حَتَّی تَکُوْنَ کَالْوَفْرَةِ»صحیح مسلم:۳۲۰ "بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔" کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ازواج مطہرات نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اپنے بالوں کو کاٹا، کیونکہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں وہ زیب و آرائش کیا کرتی تھیں اور ان کی زینت میں سب سے خوبصورت چیز اُن کے بال ہوتے تھے۔ آپﷺ کی وفات کے بعد ان کے لئے خاص حکم ہے جس میں دنیا کی کوئی عورت ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتی اور وہ حکم خاص ان کی نکاح کی اُمیدوں کا یکسر ختم ہو جانا ہے اور کسی غیر سے شادی کرنے سے مایوس ہو جانا ہے۔ آپﷺ کی موت کے بعد وہ گویا کہ معتدات (عدت گزارنے والیاں) تھیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَما كانَ لَكُم أَن تُؤذوا رَسولَ اللَّهِ وَلا أَن تَنكِحوا أَزوٰجَهُ مِن بَعدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ عِندَ اللَّهِ عَظيمًا ٥٣ ﴾..... سورة الاحزاب"نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہﷺ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپﷺ کے بعد کسی وقت بھی آپﷺ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یادرکھو اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔" مردوں سے بالکل مایوسی بسااوقات زینت سے متعلقہ بعض چیزوں کی حلت کی رخصت کا سبب بن جاتی ہے، جو اس سبب کے علاوہ حلال نہیں ہوسکتیں۔ (أضواء البیان: ۵/۵۹۸تا۶۰۱) عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بالوں کی حفاظت کرے ،ان کو پوری توجہ دے اور ان کی مینڈھیاں بنالے، بالوں کو سر پر یا گدی کی جانب جمع کرلینا جائز نہیں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ:۲۲/۱۴۵ میں فرماتے ہیں: جیسا کہ بعض آبرو باختہ کرتی ہیں کہ کندھوں کے درمیان لٹکتی ہوئی ایک ہی مینڈھی بنالیتیں ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ محمدبن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ: "عصر حاضر کی بعض مسلمان خواتین نے جو رواج اپنایا ہوا ہے کہ سر کے تمام بالوں کو کنگھی کر کے (دائیں یا بائیں) ایک ہی جانب کرلینا، گدی کی جانب بالوں کو جمع کرنا یا فرنگی عورتوں کی مانند سر پر بالوں کو جمع کرلینا، یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: «صِنْفَانِ مِنْ أهْلِ النَّارِ لَمْ أرَهُما قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ کَأذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مَائِلَاتٌ،رُؤوْسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْعِجَاف لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيْحَهَا،وَإنَّ رِيْحَهَا لَيُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ کَذَا وَکَذَا»صحیح مسلم:۲۱۲۸"اہل جہنم کی دو قسموں کو میں نے دیکھا۔پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے، دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، میل ہونے والیاں اور میل کرنے والیاں، ان کے سر دبلے پتلے بختی اونٹوں کی کوہان کی مانند ہوں گے، وہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو کو پائیں گی۔ باوجودیکہ اس کی خوشبو لمبی مسافت سے محسوس کی جاسکے گی۔" بعض علماء نے اس قول (مائلات مميلات)کی تفسیر 'ٹیڑھی مانگ نکالنا' کی ہے جو فواحشہ کی علامت ہے اور فرنگیوں کی نشانی ہے اور مسلمان عورت کے لئے ان کے نقش قدم پر چلناجائز نہیں ہے۔ (مجموع فتاویٰ:۲/۴۲، وانظر: الایضاح والتبیین للشیخ حمود التویجري، ص۸۵) ۲۔ مسلمان عورت پر اپنے ابرؤوں کے بالوں کو مونڈنا، کاٹنا یا بال صفا جیسے کیمیکل سے سارے یا کچھ بال ختم کرنا حرام ہے، کیونکہ یہی وہ عمل نمص ہے جس سے نبی کریمﷺ نے منع کیا ہے، اور ایسا کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے: «لَعَنَ النَّامِصَةَ وَالْمُتْنَمِصَةَ »صحیح ابن حبان:۵۴۸۰ "نبی کریمﷺ نے بال اکھڑوانے والی اور اکھیڑنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔" ۳۔ عورت کے لئے سونے اور چاندی سمیت ہر دھات کے زیورات پہننا جائز ہے، جس پر علماء کا اجماع ہے، لیکن غیر محرم مردوں کے سامنے اپنے زیورات کو ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو چھپا کر رکھے خصوصاً جب گھر سے باہرنکلے،کیونکہ اس میں فتنے کا ڈر ہے، عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس کے خفیہ زیورات کی آواز کوئی غیر محرم سنے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ.......٣١﴾..... سورة النور"اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے"لہٰذا ظاہر زیورات کیسے جائزہو سکتے ہیں؟ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |