السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں ۔علمائے دین اس مسئلے میں کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا حدیثوں سے ثابت ہے یا نہیں اور بدون پڑھے ہوئے نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟بینو تو جروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورت فاتحہ کا پڑھنا امام کے پیچھے احادیث صحیحہ و اخبار مرفوعہ سے ثابت ہے اور بدون پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ")[1]
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جو سورت فاتحہ نہ پڑھے‘‘
لفظ "من"کا عام ہے جو امام اور مقتدی دونوں کو شامل ہے اسی واسطے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے۔
"باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها في الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت "
یعنی باب واجب ہونے قراءت کا امام اور مقتدی کے ہر نمازوں میں بیچ گھر کے اور سفر کے اور ان نمازوں میں جن میں پکار کر پڑھی جاتی ہے قرآءت اور جن میں آہستہ پڑھی جاتی ہے قرآءت ۔نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ [2]
یعنی روایت ہے ابو ہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :’’جس کسی نے کوئی ایسی نماز پڑھی کہ اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔‘‘
مسلم ابو السائب رحمۃ اللہ علیہ سے یوں مروی ہے۔
"عن ابي السائب انه قال:قلت يا أبا هريرة انى أكون أحيانا وراء الامام قال اقرأ بها فى نفسك يا فارسى "[3]
(السائب سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عرض کی، بعض اوقات میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو انھوں نے جواب دیا۔اے فارسی !اس کو اپنے دل میں پڑھو)
سنن ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ میں نے یوں روایت کی ہے۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: «لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ» قُلْنَا: نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا[4](رواہ الترمذی ابو داؤد )
’’عبادہ بن صامت نے کہا کہ تھے ہم پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز فجر میں پس پڑھا حضرت نے قرآن پس بھاری ہوا ان پر پڑھنا پس جب پڑھ چکے نماز فرمایا :’’شاید کہ تم پڑھتے ہو پیچھے امام اپنے کے؟‘‘کہا ہم نے ،ہاں اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا! کے فر ما یا :’’ نہ کیا کرو تم یعنی نہ پڑھا کرو کچھ سورت فاتحہ پس تحقیق نہیں ہوتی نماز اس شخص کی جو نہ پڑھے سورت فاتحہ ۔‘‘
"وقال الترمذي حديث عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَرَوَى هَذَا الحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، وَهَذَا أَصَحُّ ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِيثِ فِي القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالتَّابِعِينَ ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَابْنِ المُبَارَكِ ، وَالشَّافِعِيِّ ، وَأَحْمَدَ ، وَإِسْحَاقَ : يَرَوْنَ القِرَاءَةَ خَلْفَ الإِمَامِ"
(امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث حدیث حسن ہے اس حدیث کو زہری نے محمود بن ربیع سے انھوں نے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جس شخص نے(نماز میں) سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کو ئی نماز نہیں ۔‘‘
یہ زیادہ صحیح روایت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اکثر اہل علم کے نزدیک امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں اسی حدیث پر عمل ہے نیز امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ شافعی :احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے وہ سب کے سب امام کے پیچھے قرآءت کے قائل ہیں)
اور حدیث عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روایت کیا ہے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اور صحیح کہا ہے جیسا کہ محلی شرح موطا میں ہے۔
"وحديث عبادة هذا رواه الدارقطني ايضا وابن حبان والبيهقي قال الترمذي:حسن وقال الدارقطني :رجاله ثقات واسناده حسن وقال الخطابي:اسناده جيد لا مطعن فيه وقال الحاكم :اسناده مستقيم وقال البيهقي صحيح ا نتهي"
(عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے یہ حدیث حسن ہے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ اس کے رجال ثقہ اور اس کی اسناد حسن ہے۔ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کی اسناد وجید ہے اس میں کوئی طعن نہیں ہے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کی اسناد مستقیم ہے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے یہ صحیح ہے)
اور روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے بھی "جزء القراءة "[5] میں اور صحیح کہا اس محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو جو راوی اس حدیث کا ہے تو ثیق اس کی بخوبی بیان کی ہے اور ابن الہمام نے بھی "فتح القدیر" میں محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق کی ہے اور عبارت اس کی یہ ہے۔
"هذا ان صح الحديث بتوثيق ابن اسحاق وهو الحق وما نقل عن كلام مالك فيه لا يثبت ولو صح لم يقبل اهل العلم وقد قال شعبة فيه:هو امير المومنين في الحديث وروي عنه مثل الثوري وابن ادريس وحماد بن زيد ويزيد بن زريع وابن علية وعبد الوارث وابن المبارك واحتمله احمد وابن معين وعامة اهل الحديث غفر الله لهم وقد اطال البخاري في توثيقه في كتاب ا لقراءة خلف الامام وذكر ها ابن حبان في الثقات وان مالكا رجع عن الكلام في ابن اسحاق واصطلح معه وبعث اليه هدية انتهي"[6]
(یہ تب ہے جب ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے ثقہ ہونے کے ساتھ حدیث صحیح ہو اور یہی حق ہے رہا اس (ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ )کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا کلام تو وہ ثابت نہیں ہے اور اگر وہ ثابت بھی ہوتو اہل علم نے اس کو قبول نہیں کیا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں کہاہے وہ امیرالمومنین فی الحدیث ہے ان سے ثوری رحمۃ اللہ علیہ ابن ادریس رحمۃ اللہ علیہ حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ یزید بن زریع رحمۃ اللہ علیہ ابن علیۃ رحمۃ اللہ علیہ عبدالوارث اور ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اور عالم اہل حدیث نے ان کی روایت کو قبول کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب القراءۃخلف الامام میں ان کی توثیق پر طویل کلام کیا ہے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ان کا شمار کیا ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کلام سے رجوع کرلیا تھا۔ اور اس سے صلح کر کے اس کی طرف ہدیہ روانہ کیا تھا)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں "ثقه ثقه لا شبهه عند نا وعندمحققي المحدثین"[7] (ابن اسحاق ) ثقہ ہے ثقہ )ہے ہمارے نزدیک اور محقق محدثین کے نزدیک اس کے ثقہ ہونے میں کو ئی شبہہ نہیں)اور ضعیف کہنا حدیث (الاصلاۃ کو جو بخاری نے روایت کیا ہے اور وہ اوپر مذکورہوچکی ہے کمال نادانی ہے اس واسطے کے تمام علماء قدیماً و حدیثاً کا اس پر اتفاق ہے کہ احادیث صحیحین کی سب صحیح ہیں چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی "حجۃ اللہ البالغۃ "کے صفحہ (139)میں فر ماتے ہیں۔
" قال: أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيحٌ بالقطع ، وأنهما متواتران إلى مصنفيهما ، وأنه كل من يهون أمرهما مبتدع ، متبع غير سبيل المؤمنين . "
یعنی لیکن صحیحین پس بے شک اتفاق کیا ہےمحدثین نے اس بات پر کہ تمام حدیثیں متصل مرفوع ان دونوں میں صحیح ہیں یقیناً اور وہ دونوں متواتر ہیں اپنے مصنف تک اور جو شخص اہانت کرے حکم ان دونوں کا پس وہ مبتدع ہے متبع ہے خلاف راہ مسلمانوں کی۔
اور حمل کرنا حدیث (لا صلاۃ کو اوپر نفی کمال کے جائز نہیں اس واسطے کہ اصل نفی میں نفی ذات کی معتبر ہے۔اور نفی ذات کی نہ ہوسکے تو رجوع کیا جا تا ہے طرف اقرب مجاز کے اور اقرب مجاز نفی ذات کی نفی صحت ہے نہ کہ نفی کمال اور حدیث (لاصلاۃ)میں نفی ذات کی مراد ہے اس واسطے کہ کوئی قرینہ یہاں نہیں پا یا جاتا کہ مراد نفی سےنفی کمال ہے بلکہ روایت میں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی کے یوں آیا ہے۔
((لا يجزئ صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب)) قال الدارقطني صحيح وصححه ابن القطان[8]
یعنی نہیں کافی ہوتی نماز جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے پس یہ حدیث مفسر ہے ساتھ حدیث (لاصلاۃ ) کے پس معلوم ہوا کہ مراد یہاں نفی سےنفی ذات کی ہے اس واسطےکہ جو نماز کفایت نہ کرے وہ نماز ہی نہیں اوراسی کے موید ہے قول حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمران بن حصین وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہ خود ان حضرات نے تفسیر (لاصلاۃ )کی یوں بیان کی ہے۔
قالوا((لا يجزئ صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب)) كذا في الترمذي[9]
یعنی کہا ان لوگوں نے کہ نہیں کفایت کرتی نماز مگر ساتھ قراءت فاتحہ کے۔ پس جب حدیث دوسری اس کی مفسرآچکی اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تفسیر آچکی تو اسے نفی سمجھنا محض جہالت اور نادانی ہے اور نفی کمال کی سمجھنا بد لیل قولہ تعالیٰ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ کی صحیح نہیں ہے اس واسطے کہ پڑھنا سورت فاتحہ کا ہر رکعت میں خواہ امام ہو خواہ مقتدی فرض ہے بدلیل حدیث مذکوراور دوسری احادیث صحیحہ کے جو اس باب میں وارد ہیں پس وہ احادیث آیت مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ کی مبین ہوئیں نیز دلیل پکڑنا ساتھ حدیث اعرابی کے:
ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ، [10]
کے بھی صحیح نہیں اور جواب اس کا وہی جواب ہے جو آیت کا دیا گیا بلکہ ایک روایت میں ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی اس طرح آیا ہے۔
ثم اقرأ بأم القران [11]
پس یہ آیت مجمل ہے اور حدیث اس کی مبین ہے۔
"كما لا يخفى على من له أدنى علم"
حاصل یہ ہے کہ پڑھنا سورت فاتحہ کا پیچھے امام کے فرض ہے اور یہی مذہب جمہور محدثین اور خلفائے ثلاثہ یعنی عمرو عثمان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے جیسا کہ معالم التنزیل میں موجود ہے اور عبارت اس کی یہ ہے۔
فذهب جماعة إلى إيحابها سواء جهر الإمام بالقراءة أو أسر . روي ذلك عن عمر ، وعثمان ، وعلي رضوان الله عنهم اجمعين انتهي[12]
(ایک جماعت اس کے وجوب کی طرف گئی ہے خواہ امام جہری قرآءت کرے یا مخفی اور یہی موقف عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے)
(اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا :
’’بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیشہ سے ایک اچھا نمونہ ہے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے:
’’میری اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کی سنت کو لازم پکڑو‘‘ [13]
اور تمسک پکڑنا ساتھ حدیث:
"مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" [14]
(جو امام کی اقتدا میں ہو تو امام کی قرآءت اس کی قراءت ہے ) کہ اوپر عدم جواز اقراۃ خلف الامام کے باطل ہے دو وجہ سے ایک تویہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور راوی اس کا جابر جعفی ہے اور عندالمحدثین ضعیف ہے بلکہ کہا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہ نہیں دیکھا میں نے کسی کو جھوٹا زیادہ اس سے جیسا کہ محلی میں ہے۔
"وروي ابن ماجه ايضا من طريق حسن بن الصالح عن جابر الجعفي عن ابي الزبير عن جابر مرفوعا: "مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" وضعفه دارقطني والبيهقي فان الجعفي ساقط الحديث حتي قال ابو حنيفة ما رايت احدا اكذب منه انتهي"
(ابن ماجہ نے بھی حسن بن صالح کے واسطے سے روایت کیا ہے اس نے جابر جعفی سے اس نے ابو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جو امام کی اقتدا میں ہو تو امام کی قرآءت اس کی قرآءت ہے چنانچہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ضعیف کہا ہے پس بلا شبہہ جعفی ساقط الحدیث ہے حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے میں نے اس (جعفی) سے زیادہ جھوٹا کوئی راوی نہیں دیکھا ہے)
اور کہا ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے "العلل المتناھیہ"میں۔
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" روي عنه شعبة وجماعة عن موسي بن ابي شداد وكلهم ارسلوه وانما هو قول ابن عمر وهذا اشبه بالصواب[15]
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" اس سے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ایک جماعت نے موسیٰ بن ابی شداد سے روایت کیا ہے اور ان سب نے اس کومرسل بیان کیا ہے یہ تو صرف ابن عمر کا قول ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے)
دوسری یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ حدیث صحیح ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ حدیث محمول ہے اوپر ماسواسورت فاتحہ کے جیسا کہ کہا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے"جزءالقراءۃ"میں۔
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" لم يثبت لانه اما مرسل واما ضعيف ولو ثبت لكانت مستثناة[16]
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" ثابت نہیں ہے کیوں کہ یا تو یہ مرسل ہے یا ضعیف ہے اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہو تو سورۃ الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہو گی)
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" کو دونوں سفیان و شعبہ اور ایک جماعت نے موسیٰ بن ابی شداد رحمۃ اللہ علیہ سے مرسل بیان کیا ہے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مرسل ہونے کو صحیح قراردیا ہے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سورت فاتحہ کے علاوہ پر محمول کیا ہے۔النتھی۔
کمال المحققین نے اس حدیث کا اثبات کرنے کے بعد کہا ہے وہ عبادہ کی حدیث کے معارض ہے اس کو مطلق طور پر منع کے مقدم ہونے اور قوت سند کی وجہ سے مقدم رکھا جا تا ہے کیوں کہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے خاص پور پر مذاہب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ قوی ہونے کی بنا پر کذافی المحلی مولوی سلام اللہ نے ابن الہمام کے قول کے رد میں کہا ہے حدیث كذا في المحلي
حديث مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" منع کے بارے میں نص نہیں ہے جیسا کہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے اور حدیث لا تفعلوا إلا بأم القرآن یہ ایجاب کے لیے ہے نہ کہ اطلاق کے لیے مخالف یہ کہہ سکتا ہے عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو مقدم کیا جا ئےگا کیوں کہ ایجاب اباحت پر مقدم ہوتا ہے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اگر چہ صحیح ہے لیکن اس کا عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہو نا محل تردو ہے۔انتهي۔
قاضی القضاۃ ابراہیم بن ابی بکر حنفی نے" برہان شرح مواہب الرحمٰن "میں ابن الہمام کا قول نقل کرنے کے بعد کہ حدیث:
"مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ"
کے ساتھ تو امام کے پیچھے قرآءت ممنوع ہے کہا ہے کہ یہ ممنوع اور مدفوع ہے مگر امام کے پیچھے قرآءت کے رف کو متضمن ہونے کا دعوی اس کے ساتھ معارض ہے جو اس روایت کے آخر میں بیان ہوا ہے کہ وہ نا مکمل ہے کیوں کہ وہ منع کے ضمن میں ہے۔ بالفرض اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر قرآءت کی وجہ سے اس سے منع کیا دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قرآءت سنی نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی وجہ سےمَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ معارضہ ثابت نہیں ہوتا ہے کیوں کہ تطبیق ممکن ہے لہٰذا اس سے نہی کو جہرپر محمول کیا جائے گا کیوں کہ وہ حدیث میں مذکور منازعہ کو مستلزم ہے اور جہاں اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے تو وہ مخفی پڑھنے کا حکم ہے جس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی نماز کی تقسیم والی حدیث میں ان کا یہ قول ہے کہ اے فارسی!اس کو دل میں پڑھو۔پس اتنی سی بات سے امام کے پیچھے قرآءت سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی ہے۔)
[1] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث(723) صحیح مسلم رقم الحدیث (394)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(395)
[3] ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث (395)کتاب القراءۃ للبیہقی (41)
[4] ۔سنن ابن داؤد رقم الحدیث(823)سنن الترمذی رقم الحدیث(312)
[5] ۔جزہ القراۃ للبخاری رقم الحدیث(158)
[6] ۔فتح القدیر(228/1)
[7] ۔فتح القدیر(424/1)
[8] ۔سنن الدارقطنی (321/1)صحیح ابن حبان (91/5)
[9] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث(274)
[10] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (724)
[11] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (859)
[12] ۔معالم التنزیل للبغوی۔(320/3)
[13] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (2676)
[14] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (81)
[15] ۔العلل المتناھیہ (428/1)
[16] ۔جزء القراءۃ للبخاری(ص2)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب