سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) اذان اور نماز کے چند مسائل

  • 22835
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1139

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بستی میں ایک جماعت محمد یوں کی رہتی ہے ان میں چند باتیں نئی دیکھنے میں آئیں۔آیا سب موافق حدیث نبوی کے ہیں یا کوئی نیا طریقہ ہے؟اگر موافق حدیث کے یہ افعا ل ہیں تو کس فعل کی کون سی حدیث ہے اور وہ حدیث کس کتاب میں کس جگہ پر ہے؟ اس سے مطلع فرمائیے اور وہ افعال یہ ہیں۔

1۔ایک تو اذان میں" اللہ اکبر اللہ اکبر "ایک ایک بار جدا جدا دیر دیر کے بعد پکارتے ہیں اور

"اشهد ان لا اله الا الله  واشهد ان محمدا رسول الله"

کو پہلے موذن چپکے چپکے کہتا ہے بعد اس کے بلند  آواز سے۔

2۔تکبیرمیں سوا"قدمامت الصلاۃ"کے سب کو ایک ایک بار کہتے ہیں۔

3۔وقت تکبیر اور نیت باندھنے کے جیب یا کان سے مسواک نکال کردو چار بار منہ میں پھیر تے ہیں اور بدستورجلدی سے نماز پڑھتے ہیں۔

4۔رکعات اولین میں بعد فاتحہ کے کسی سوررت کو ختم کرتے ہیں اس کے بعد سورت اخلاص بھی ضرور پڑھتے ہیں خواہ جماعت میں امام ہو خواہ منفرد۔

5۔جب امام "سمع اللہ لمن حمدہ"کہتا ہے توکل جماعت

"رينا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه"

بآواز بلند کہتے ہیں ۔

6۔جب صفیں باندھتے ہیں تو ایک مصلی (نمازی ) کے پیر کی خنصر دوسرے مصلی(نمازی) کی خنصر سے ملی رہتی ہے۔بلکہ ایک کی داہنی خنصردوسرے کی بائیں خنصر پر پڑھی رہتی ہے اور یہ انتظام ہر رکعت میں رہتا ہے۔

7۔درمیان دونوں سجدوں کے جو جلسہ ہے۔اس میں "اللھم اغفرلی"پوری دعا کو سب جماعت بالجہر پڑھتے ہیں ان سب کو سند ازراہ کریم الخلقی مرحمت فرمائی جائے۔بینواتؤجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1- اشهد ان لا اله الا الله  اشهد ان محمدا رسول الله

کو پہلے چپکے چپکے کہنا پھر بلند آواز سے کہنا حدیث سے ثابت ہے اور وہ حدیث حسب ذیل ہے جو مشکوۃ شریف(ص:63مطبوعہ مجتبائی دہلی) میں ہے۔

"قال قلت { يا رسول الله علمني سنة الأذان قال فمسح مقدم رأسه وقال تقول الله أكبر الله أكبر الله , أكبر الله أكبر , ترفع بها صوتك , ثم تقول أشهد أن لا إله إلا الله , أشهد أن لا إله إلا الله , ترفع صوتك بالشهادة أشهد أن محمدا رسول الله , أشهد أن محمدا رسول الله , حي على الصلاة , حي على الصلاة , حي على الفلاح , حي على الفلاح , فإن كان صلاة الصبح قلت الصلاة خير من النوم , الصلاة خير من النوم , الله أكبر الله أكبر , لا إله إلا الله (رواءابو داؤد)[1]

’’ابو مخذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں میں نے عرض کی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرکر فرمایا :’’کہو :اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہےاپنی آواز بلند کرو۔ پھرکہو،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق  نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق  نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کےرسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کےرسول ہیں۔ یہ کلمات کہتے ہوئے آواز پست رکھو پھر یہ کہتے ہوئے کہ میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود برحق  نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کےرسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کےرسول ہیں۔ اپنی آواز بلند کرو۔ پھر کہو: نماز کی طرف آؤ نمازکی طرف آؤ کامیابی کی طرف آؤ کامیابی کی طرف آؤ اگر نماز فجر ہوتو کہو:نماز نیند سے بہترہے نماز نیند سے بہترہے اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘‘

جواب۔2۔تکبیر میں سوائے "قدقامت الصلاۃ"کے سب کو ایک ایک بار کہنا حدیث سے ثابت ہے اور وہ حدیث حسب ذیل ہے جو مشکوۃ شریف (ص:63مطبوعہ مجتبائی دہلی) میں ہے۔

"وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : ( إِنَّمَا كَانَ الأَذَانُ عَلَى عَهدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَينِ مَرَّتَينِ ، وَالإِقَامَةُ مَرَّةً مَرَّةً ، غَيرَ أَنَّه يَقُولُ : قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ"[2]

(ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں اذان کے کلمات دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات "قدقامت الصلاۃ""قدقامت الصلاۃ" کے سوا ایک ایک مرتبہ تھے)

جواب۔3۔مسواک کرنا تکبیر اور نیت باندھنے کے وقت بھی حدیث سے ثابت ہے مشکوۃ شریف (ص:45مطبوعہ مجتبائی دہلی) میں ہے۔

"عن ابي سلمة زيد بن خالد الجهني قال سمعت رسول الله يقول لولا ان اشق علي امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة ولاخرت صلاة العشاء الي ثلث الليل قال:وكان زيد بن خالد يشهد الصلاة في المسجد وسواكه علي اذنه موضع القلم من اذن الكاتب ولا يقوم الي الصلاة الااستن ثم رده الي موضعه (ارواءالترمذی ابو داؤدالاانہ بذکر: (ولا حرث صلاۃ العشاءالی ثلث اللیل)(وقال ترمذی ھذا حدیث حسن صحیح)[3]

(ابو سلمہ رحمۃ اللہ علیہ  زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:" اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور نماز عشاء کو تہائی رات تک موخر کرتا۔"زید بن خالد مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتے تو کاتب کے قلم کی طرح ان کی مسواک ان کے کان پر ہوتی تھی اور وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے اور پھر اسے اس کی جگہ (کان ) پر رکھ دیتے)

جواب۔4۔نماز میں بعد فاتحہ کے پہلے سورت اخلاص پڑھنا بعد اس کے کسی سورت کو ضم کرنا حدیث سے ثابت ہے بخاری شریف پارہ سوم (ص:422مطبوعہ انصاری دہلی ) میں ہے۔

"وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلَاةِ مِمَّا يُقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَكَلَّمَهُ أَصْحَابُهُ فَقَالُوا إِنَّكَ تَفْتَتِحُ بِهَذِهِ السُّورَةِ ثُمَّ لَا تَرَى أَنَّهَا تُجْزِئُكَ حَتَّى تَقْرَأَ بِأُخْرَى فَإِمَّا تَقْرَأُ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَهَا وَتَقْرَأَ بِأُخْرَى فَقَالَ مَا أَنَا بِتَارِكِهَا إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِذَلِكَ فَعَلْتُ وَإِنْ كَرِهْتُمْ تَرَكْتُكُمْ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْ أَفْضَلِهِمْ وَكَرِهُوا أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ فَلَمَّا أَتَاهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ فَقَالَ يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّهَا فَقَالَ حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ" [4]

(اور عبید اللہ عمری نے ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا کہ انصار میں سے ایک شخص (کلثوم بن ہدم) قبا کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتا تھا ۔وہ جب بھی کوئی سورت (سورۃ فاتحہ کے بعد) شروع کرتا تو پہلے"قل ھواللہ احد"پڑھ لیتا۔ پھر کوئی دوسری سورت پڑھتا ۔ہر رکعت میں اس کا یہی عمل تھا اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تم پہلے یہ سورت پڑھتے ہواور صرف اسی کا کافی خیال نہیں کرتے بلکہ دوسری سورت بھی (اس کے ساتھ)ضرور پڑھتے ہو یا تو تمھیں صرف اسی کو پڑھنا چاہیے ورنہ اسے چھوڑ دینا چاہیے ۔اور بجائےاس کے کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے اس شخص نے کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا اب اگر تمھیں پسند ہے کہ میں نماز پڑھاؤں تو برابر پڑھاتا رہوں گا ورنہ میں نماز پڑھانا چھوڑ دوں گا۔لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص نماز پڑھائے ۔جب  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف  لائے تو ان لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو واقعے کی خبر دی ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو بلاکر پوچھا کہ اےفلاں!تمھارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورت کو ضروری قرار دے لینے کا سبب کیا ہے انھوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس سورت سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس سورت کی محبت تمھیں جنت میں لے جائے گا۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے اس فعل پر سکوت فرمایا بلکہ تحسین فرمائی ایسی احادیث کو تقریری کہا گیاہے)

جواب5۔یہ بھی حدیث سےثابت ہے بخاری شریف پارہ سوم (ص:436مطبوعہ انصاری دہلی ) میں ہے۔

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ قَالَ كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ قَالَ أَنَا قَالَ رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلَاثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ"[5]

(ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے امام مالک سے بیان کیا انھوں نے نعیم بن عبد اللہ  سے بیان کیا انھوں نے علی بن یحییٰ خلادسے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے رفاعہ بن رافع زرقی سے انھوں نے کہا ہم نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدامیں نماز پڑھ رہے تھے جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  رکوع سے سر اٹھاتے تو "سمع اللہ لمن حمدہ"کہتے ایک شخص نے پیچھے سے کہا:

"رينا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه"

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز سے فارغ ہوکر دریافت فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے ہیں؟اس نے شخص نے جواب دیا میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان کلمات کے لکھنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے چاہتے تھے )

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس نے بآواز بلند "ربنا ولک والحمد۔الخ"کہا تھا ۔ جس کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور لوگوں نے بھی سنا اور اس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع نہیں فر مایا بلکہ یہ فر ما یا کہ میں نے تیس اور کئی فرشتوں کو دیکھا کہ جلدی کر رہے ہیں کہ ہم پہلے لکھیں۔

جواب۔6۔جماعت میں ایک مصلی(نمازی) کے پیر کی خنصر دوسرے مصلی(نمازی) کے خنصرسے اس لیے مصلی رہتی ہے کہ حدیث میں صف کے ٹھیک رکھنے اور درمیان میں کشادگی نہ رکھنے کے بارے میں بہت تاکید آئی ہے اس لیے قدم کو قدم سے خوب ملا کر رکھنا چاہیے تاکہ صف ٹھیک ہواور کشادگی باقی نہ رہی اور جب قد م سے قدم ملے گا تو خنصرسے خنصر ضرورملےگی۔

بخاری شریف پارہ سوم(ص:400مطبوعہ انصاری دہلی) میں ہے۔

وَعَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ فَدَخَلَ فِي الصَّلاةِ فَقَالَ : " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.[6]

(ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے حمید سے بیان کیا انھوں نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"صفیں برابر کر لو۔میں تمھیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔"اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ(صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھےسے اپنا قدم اس کےقد م سے ملا دیتا تھا)

مشکوۃ شریف (ص: مطبع مجتبائی دہلی) میں ہے۔

"وعن عبد الله بن عمر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ، ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله"(رواء ابو داؤد وردی نسائی منہ قولہ (ومن وصل صفا)الی آخر ء [7]

(سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :'اپنی صفیں قائم کرو کندھے برابر رکھو۔

شگاف بند کرو اپنے بھائیوں ہاتھوں کے لیے نرم جاؤ شیطان کے لیے شگاف (خالی جگہ) نہ چھوڑواور جو شخص صف ملائے گا اللہ (اپنی رحمت کے ساتھ)اسے ملائے گا اور جو اسے قطع کرے گا اللہ اسے(اپنی رحمت سے) قطع کردے گا)


[1] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (500)مسند احمد (408/3)مشکاۃ المصابیح(143/1)

[2] ۔سنن ابی داؤدرقم الحدیث (510)الترمذی رقم الحدیث (516)سنن النسائی رقم الحدیث (628)مسند احمد (85/2)سنن الدارمی (290/1)مشکاۃ المصابیح (142/1)

[3] ۔ سنن ابی داؤدرقم الحدیث (47)سنن الترمذی رقم الحدیث (47) (23)مسند احمد (116/4)

[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (741)سنن الترمذی رقم الحدیث (2901)یہ حدیث صحیح بخاری میں معلق ہے لیکن امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے امام بخاری ہی سے موصولاً روایت کیا ہے۔نیز دیکھیں : فتح الباری (257/2)تغلیق التعلیق (314/2)

[5] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(766)

[6] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث( 692)

[7] ۔سنن ابی داؤدرقم الحدیث( 666)سنن النسائی رقم الحدیث (820)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:140

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ