السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔جس وقت حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استہزاے اذان کیا تھا اس وقت حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تھےیا قبل استہزاکے؟
2۔فی الوقع حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کراہیت تھی یا محض افتراہے؟
3۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ کسی کتاب میں تحریرہوتو ارقام فرمادیں ۔
4۔استہزاکی کوئی تاویل ہے یا علت کفرہے؟جیسا کہ مولوی رشید احمد صاحب مرحوم نے لکھا ہے۔
5۔جمہور ترجیع اذان کے قائل ہیں یا نہیں؟کسی کتاب شروح حدیث میں لکھا ہوتو تحریر فرمادیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس وقت اذان کا استہزا کیا تھا اسلام نہیں لائے تھے۔
2۔جس وقت اسلام نہیں لائے تھے ظن غالب یہی ہے کہ اسلام کی جانب سے ان کو کراہیت قلبی رہی ہوگی۔
3۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ مفصل کسی کتاب میں مرقوم ہے لیکن مجمل طور پر تو اسی حدیث اذان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو استہزائے اذان کی آواز سن کر بلوابھیجا اور ان میں سے ہر ایک سے اذان کہلوا ئی۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آپ کو خوش معلوم ہوئی تب آپ نے ان کے کل ساتھیوں کو رخصت فرمادی اور ان کو رکھ چھوڑااور اپنے سامنے بیٹھا کر ان کے سراور منہ اور سینے پر ناف تک اپنا دست مبارک پھیرا اور تین باران کو برکت کی دعادی اور فرمایا :تم جاؤ اور بیت الحرام کے پاس اذان کہو، انھوں نے عرض کی کہ مجھ کو سنت اذان تعلیم فرمادیجئے تب آپ نے نفس نفیس سنت اذان سکھا دی اور اس کام کو اور کسی کے سپرد نہیں فرمایا ۔آپ نے جو سنت اذان تعلیم فرمائی اس میں ہے کہ ترجیع بھی خود آپ ہی نے تعلیم فرمائی ۔تعلیم اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست پر ان کو مکہ معظمہ کا موذن مقرر فرمایا ،جواب تک یہ عہد ہ ان کے خاندان میں چلا آیا ۔
4۔ظاہر تو یہی ہے کہ استہزا کی علت کفر ہے کیونکہ جس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے لیکن جس وقت آپ نے ان کو ترجیع سکھائی تھی۔اس وقت اسلام کے نور سے ان کا دل منور ہو چکاتھا پس اس وقت کی نسبت یہ کہنا کہ"یہ تکرار برفع صوت(ترجیع )واسطے رفع کراہت قلبی حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور واسطے رفع کفر حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھا نہ یہ کہ تکرار کو سنت اذان فرمایا ہے مگر حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو نہ سمجھے "صحت سے بہت دور معلوم ہوتا ہے اور نسائی میں بھی کہیں اس کا کچھ ذکر نہیں ہے بلکہ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے"نصب الرایۃ " میں اس کی کافی تردید فر مادی ہے۔"نصب الرایۃ " (131/1)کی عبارت یہ ہے)
"ويردها لفظ ابي داود قلت يا رسول الله علمني سنة الاذان وفيه ثم تقول اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمدا رسول الله تخفض بها صوتك ثم ترفع صوتك بها فجعله من سنة الاذان وهو كذلك في صحيح ابن حبان ومسند احمد"
(ابو داود کے یہ الفاظ ان کا رد کرتے ہیں(ابو مخذورہ کا بیان ہے)کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے ۔ اس حدیث میں یہ ہے کہ پھر تم کہو:
"اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمدا رسول الله"
(پہلی دفعہ ) تو یہ کہتے ہوئے آواز کو پست رکھ پھر (دوسری مرتبہ ) ان کو بلند آواز کے ساتھ کہہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ترجیع شہادتین )کو اذان کے طریقے میں(جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا ) شامل کیا ہےصحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ میں بھی اسی طرح بیان ہوا ہے)
5۔ہاں جمہور ترجیع اذان کے قائل ہیں۔"نیل الاوطار"(337/1)میں ہے۔
"وذهب الشافعي ومالك واحمد وجمهور العلماء كما قال النووي الي ان الترجيح في الاذان ثابت لحديث ابي محذورة ...الي قوله ويرجحه ايضا عمل اهل مكة والمدينة به"
(امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مالک احمد اور جمہور علماء رحمۃ اللہ علیہ اس طرف گئے ہیں کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی وجہ سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔حتی کہ اہل مکہ اور اہل مدینہ کا ترجیع والی اذان کہنا بھی اس کوراجح قرار دیتا ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب