السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اذان میں لفظ اللہ اکبر،اللہ اکبر،دونوں کو ایک ساتھ ہی کہنا چاہیے یا ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کہنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں کوئی تصریح کسی حدیث میں میری نظر سے نہیں گذری ہے،ہاں عون المبعود سنن ابو داود (۱/ ۱۸۹) میں ہے:
"الله اكبر الله اكبر كلمةواحدة ولهذا شرع جمع كل تكبير تين في الاذان بنفس واحد كما ذكره النووي انتهي"
اللہ اکبر ،اللہ اکبر، ایک ہی کلمہ ہے اس لیے اذان میں دونوں تکبیروں کو ایک ہی سانس جمع کرنا مشروع کیا گیا ہے جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت شرح صحیح مسلم (۱/ ۱۶۴) میں یہ ہے:
" فإن قيل : قد قلتم : أن المختار الذي عليه الجمهور أن الإقامة إحدى عشرة كلمة منها الله أكبر الله أكبر اولا واخرا وهذه تثنيه؟فالجواب ان هذا وان كان صورة تثنية فهو بالنبسة الي الاذان افراد ولهذا قال اصحابنا يستحب للموذن ان يقول كل تكبير تين بنفس واحد يقول في اول الاذان الله أكبر الله أكبر بنفس واحد ثم يقول الله أكبر الله أكبر بنفس أخر"[1]
پھر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ تمہارا کہنا تو یہ ہے کہ جمہور کا مختار مذہب یہ ہے کہ اقامت کے گیارہ کلمات ہیں اور ان میں اللہ اکبر،اللہ اکبر،اقامت کے شروع میں بھی ہے اور اس کے آخر میں بھی ہے اور یہ توتثنیہ (جوڑا) ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ کلمات بظاہر تثنیہ ہیں،لیکن اذان کی نسبت یہ مفرد ہی ہیں۔اس لیے ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ موذن کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ دونوں تکبیریں ایک سانس کے ساتھ کہے،چنانچہ وہ اذان کے شروع میں ،اللہ اکبر،اللہ اکبر،ایک سانس سے کہے اور پھر اللہ اکبر،اللہ اکبر،دوسرے سانس کے ساتھ کہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری(236/2) میں لکھتے ہیں:
"وقد استشكل عدم استثناء التكبير في الإقامة، وأجاب بعض الشافعية بأن التثنية في تكبيرة الإقامة بالنسبة إلى الأذان إفراد، قال النووي: ولهذا يستحب أن يقول المؤذن كل تكبيرتين بنفس واحد. قلت: وهذا إنما يتأتى في أول الأذان لا في التكبير الذي في آخره. وعلى ما قال النووي ينبغي للمؤذن أن يفرد كل تكبيرة من اللتين في آخره بنفس" [2]
اقامت میں تکبیر کے عدم استثناء وارد ہوا تو بعض شوافع نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اقامت میں تکبیر کا تثنیہ اذان کی نسبت افراد ہی ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اسی لیے مستحب یہ ہے کہ موذن دونوں تکبیروں کو ایک سانس کے ساتھ کہے،میں (ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ) کہتا ہوں کہ یہ عمل اذان کے شروع والی تکبری میں ہوگا نہ کہ اس تکبیر میں جو اذان کے آخر میں ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق موذن کے لیے لائق یہ ہے کہ وہ اذان کے آخر والی دو تکبیروں کو ایک سانس کے ساتھ الگ الگ کہے۔(کتبہ:محمد عبداللہ(15/ذی القعدہ 1330ھ)
[1] شرح صحیح مسلم للنووي (۴/ ۷۹)
[2] فتح الباري (۲/ ۸۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب