سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) مسجد کے اخراجات کے لیے اس کی جگہ میں دکانیں تعمیر کرنا

  • 22829
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 670

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسجد پختہ اب سڑک شہر میں واقع ہے۔بالکل غیر آباد اور بوسیدہ حالت میں ہوگئی ہے۔اس کے چراغ بتی اورنیز مرمت وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس کے بقا اور استحکام کا خیال کر تے ہوئے اگر لب سڑک دکان تعمیر کردی جائیں اور اوپر مسجد کا حصہ کردیا جائے تاکہ دکان کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات مرمت،صفائی،چراغ بتی اور پانی وغیرہ کے لیے ایک مستقل صورت پیدا ہوجائے۔اس کی چھت وغیرہ بالکل مسمار ہوگئی ہے باہر کی دیوار کھڑی ہے۔اندر تمام گھاس جم گئی ہے بالکل خراب وخستہ حالت میں ہے۔اگر شرعاً اجازت ہوتو نیچے کا حصہ دکان میں شامل کردیا جائے اور اوپر کا حصہ مسجد میں کردیا جائے یعنی اوپر مسجد اور اس کےنیچےدکان تعمیر کرادی جائے تو ایسی صورت میں شرعاً اجازت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں مسجد مذکور کی زمین پر یا اس کے کسی حصے پر دکان تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ جب کوئی زمین ایک بار مسجد قرار پاچکی تو اب وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہوگئی اس کا مسجد ہونا کبھی باطل نہیں ہوسکتا اور اس جگہ کا ادب واحترام ہمیشہ کے لیے واجب ہے۔نہ اُس میں جنب اور حائض ونفساء کا داخل ہونا جائز ہے اور نہ اس زمین پر یا اس کے کسی حصے پر دُکان  تعمیر کرنا جائز ہے۔اگرچہ یہ دکان اس غرض سے  تعمیر کرائی جائے کہ اس کی آمدنی سے اس دکان کے اوپر مسجد بنائی جائے اور اس مسجد کے اخراجات مرمت،صفائی،چراغ بتی اور پانی وغیرہ کے لیے مستقل صورت  پیدا ہوجائے ،فقہائے حنفیہ کے نزدیک بھی یہی اصح ہے اور یہی مفتی بہ ہے۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"واذا خرب المسجد واستغني اهله وصار بحيث لا يصلي فيه عاد ملكا لو اقفه او لورثته حتي جازلهم ان يبيعوه او بينوه دارا وقيل هو مسجد ابدا وهو الا صح كذا في خزانة المفتين" [1]

جب مسجد ویران ہوجائے اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی تو وہ اس کو وقف کرنے والے یا اس کے ورثا کی دوبارہ ملکیت بن جائے گی حتیٰ کہ ان کے لیے اسے بیچنا یا اسے  گھر بنانا جائز ہوگا،لیکن ایک قول کے مطابق وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی اور یہی زیادہ صحیح ہے جیسا کہ"خزانة المفتين"میں ہے۔

در مختار میں ہے:۔

"ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني أبدا إلى قيام الساعة وبه يفتي حاوي القدسي"[2]

اگر اس(مسجد) کے ارد  گرد ویران ہوجائے اور اس سے مستغنی ہوجائیں تو وہ امام اور دوم کے نزدیک ہمیشہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی اور اسی پر فتویٰ ہے۔

رد المختار(513/3) میں ہے:۔

"قوله : (ولو خرب ما حوله ) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر ( قوله : عند الإمام والثاني ) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر ، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي ، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح اهاجر"

 اس کے قول اگر اس کے ارد گرد کا علاقہ ویران ہوجائے کا مطلب ہے کہ اگرچہ وہ(مسجد) اس ویرانی کے باوجود آباد رہے۔ اسی طرح اگر وہ ویران ہوجائے اور مسجد کو آباد کرنے کی کوئی صورت بھی نہ ہو اور کسی دوسری مسجد کے بننے کی وجہ سے لوگ اس سے بے پرواہ ہوجائیں اس کاقول "امام اور دوم کے نزدیک"چنانچہ وہ دوبارہ میراث بنے گی نہ اس کو نقل کرنا ہی جائز ہے اور نہ اس کے مال کو کسی دوسری مسجد کی طرف منتقل کرنا درست ہے  ،خواہ وہ اس میں نماز پڑھیں یا نہیں اور یہی فتویٰ ہے اسی پر اکثر مشائخ ہیں۔اور یہی زیادہ قوی ہے۔املاہ:محمد عبدالرحمان عفا اللہ تعالیٰ عنہ۔


[1] ۔فتاویٰ عالمگیری(458/2)

[2] ۔الدرالمختار(358/3)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:129

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ