السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک بستی میں مسجد انداز پچاس برس سے بنی ہوئی تھی اورسیٹل منٹ،یعنی پیمائش سرکاری میں متولی مسجد کوئی لکھا ہوا نہیں ہے۔بہرحال ایک شخص اندازہ تیرہ بیگہہ زمین لاخراج زبانی وقف کرگیا تھا،یعنی اپنے وارثوں کو کہہ گیا تھا کہ تم لوگ فیصل آباد کرکے نصف حق آبادی زراعت لے لینا اور نصف فقیر اور مسکین کو تقسیم کردینا۔اس کو عرصہ پینتیس برس کا ہوا۔سیٹل منٹ کے وقت جس کو عرصہ بائیس برس ہوا،اس زمین کو کاشت کار نے مسجد کا نام بتادیا،وہی لکھ گیا،ایک شخص جو اس مسجد کا تعمیر کرنے والا بھی نہیں،مگر اب مالدار ہے اور بزور مسجد کا متولی بنا ہوا ہے اور فی الحال وہی امام مسجد ہے،جھوٹ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ زمین واقف ہمارے دادا کو ہبہ کردیا گیا ہے مسجد کے مصارف کے واسطے اب امام مسجد بس ہم کو ہونا چاہیے اور حال اس زمین کا یہ ہے کہ وقف ہی کے وقت سے چونکہ واقف کے وارث سوائے اس کے ایک نابالغ لڑکے کے اور ایک زوجہ کے کوئی نہ تھا اور وہ لڑکا بھی بعد چند روز کے انتقال کرگیا،کل مال کی وارث زوجہ لڑکے کی ماں ہوئی۔اسی کی اجازت سے زمین آباد ہوتی رہی۔نصف واقف کی زوجہ لیتی اور نصف پیداوار فقیر مسکین کو تقسیم ہوجاتا۔غرض کہ اس زمین پر دخل قبضہ واقف کی زوجہ کورہا۔اس صورت میں ازروئے شرع اس زمین کا متولی امام مسجد ہے۔یا واقف کی زوجہ کی جیسے پہلے سے آج تک زمین آباد کرکے نصف لیتی تھی اور نصف فقراء اور مساکین میں تقسیم کردیتی تھی اور کبھی کہیں کی مسجد کی خبر آئی،اس میں بھی دے دیا کرتی تھی،یہی عورت متولی رہی،غرض کہ ان دو میں سے کون متولی ہوسکتاہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہرگاہ امام مسجد کا دعویٰ جھوٹ ہے تو جس طرح عورت متولی چلی آتی ہے اُسی طرح اب بھی متولی رہے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب