السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسجد قدیم کہنہ بوسیدہ قناطی موقوعہ محلہ بلو اگھاٹ من محلات چنار گڑھ تھی اندر حدود ارض مسجد مذکور پورب جانب ایک حجرہ خام بنوا کر شیخ اکبر عرف حاجی بنیس نے بودوباش اختیارکرکے ہر طرح سے آباد کیا اور اشخاص اہل اسلام سنت وجماعت نماز پنج گانہ ادا کرنے لگے۔ بعد کئی سال بوجہ بارش وطغیانی دریا حجرہ وغیرہ ودیوار احاطہ مسجد گر گیا،چونکہ حاجی موصوف آدمی صد سالہ عابد پابند صوم وصلاۃ بہمہ صفت متقی پرہیز گار تھے۔کمر بستہ ہمت کار خیر دارین سمجھ کر از سر نو چھت وحجرہ وچہار دیواری وغیرہ برجائے قدیم اندر حدود ارض مسجدمسلمانوں سے چندہ تحصیل کرکے پختہ عرصہ چار برس کا تیار کرایا۔چار برس تک کوئی شخص مزاحم نہ ہوا۔چونکہ مسجد کی جانب دکھن کسی قدر زمین ایک شخص سنت جماعت کی ہے،جو بہت بڑے متدین اور سادات سے ہیں اوراپنی حکومت کے زمانے میں بہت ہی ذہانت سے کام کرتے رہے یہاں تک کہ سود کی ڈگری بھی کر نا روا نہیں رکھتے تھے انھوں نے اپنی بیٹی کا عقد ایک شخص خلاف مذہب جس کا بیان کافی کتاب الروضہ کے صفحہ(16) میں مرقوم ہے کردیا،اس کی تاثیر صحبت سے اس قدر اثر ہوا کہ لوگوں کی ا راضیات بھی،یعنی کھیت بھوگ بند ہک لکھا ہے۔
ماورا اس کے ان کے داماد صاحب نے بوجہ تعصب ونکالنے بغض قلبی سنیوں سے کیا،شگوفہ کہ زمین حجرہ وصحن مسجد ہمارے خسر کی ہے لوگوں سے کہنے لگا کہ حاجی پر جوٹ سالانہ اسٹامپ لکھ دے اور سال بسال ادا کیا کرے ورنہ زمین صحن وزمین حجرہ گرواکر کرلے لوں گا حتیٰ کہ حاجی سے نوبت گفت وشنود کی آئی۔حاجی نے کہا کہ خداخانہ ہے میرا گھر نہیں ہے،دوسرے نہ تمہاری زمین ونہ خسر کی تمہاری زمین کہتے کیا ہو۔بالفرض اگر زمین آپ کی تھی تو وقت بننے کے دوروپیہ چندہ اور پتھر وغیرہ سے مدد دیا توگویا ان کی رضا مندی سے حجرہ اور چہار دیواری وغیرہ بنوائی گئی ،پھر اب د عویٰ آ پ کا لغو ہے۔اس بات پر ان کے خسر صاحب جو اپنے کو سنت جماعت کہتے ہیں اپنے داماد کی تائید وحمایت کرکے صحن مسجد وحجرہ گرا کر زمین لینے کا دعویٰ عدالت دیوانی میں کردیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کی بیٹی کا انتقال بھی عرصہ پانچ چھ برس کا ہوا ہوگیا مگر وہ وہ اس کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور ہر ایک امر میں اس کا کہنا مقدم اور نیک جانتے ہیں۔ایسی حالت میں شہر کے مسلمانوں کو چندہ دینا ومدد کرنا حجرہ وصحن بچانے کےواسطے واجب ہے یا نہیں اور وہ شخص شرع شریف کے بموجب ظالم ٹھہرے گا یا نہیں اور نکاح ان کی لڑکی مومنہ صالحہ کا ساتھ فاسق وقاسط کے موافق فتاویٰ مذہب اہل سنت وجماعت کے شرعا درست ہوا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب صحن متنازع فیہ اندر حدود اراضی مسجد واقع ہے تو وہ بھی شمول مسجد داخل وقف ہے۔جس میں کسی شخص کو ملکیت کا حق حاصل نہیں ہے اور جملہ مسلمانان کا حق اس میں یکساں اور برابر ہے۔حجرہ بھی جب مسلمانوں ک چندہ ورضا مندی سے اندر حدود اراضی مسجد کے تعمیر ہواہے تو حجرے میں بھی ان تمام مسلمانوں کا حق ثابت ہے تو اب بلارضا مندی جو شخص مسجد مذکور کی نسبت ملکیت کا دعویٰ کرے۔یا حجر مذکورہ کو بلا رضا مندی ان تمام مسلمانوں کے گرائے یا گرانے کی کوشش کرے وہ شخص شرع شریف کی رو سے بے شبہہ ظالم ہے اس شخص کے مقابلے میں صحن وحجرہ کے بچانے کے واسطے مسلمانوں کو چندہ دینا اورمدد کرناواجب ہے۔
فتاویٰ عالمگیری(550/2 چھاپہ ہوگلی) میں لکھا ہے:
"رَجُلٌ أَعْطَى دِرْهَمًا في عِمَارَةِ الْمَسْجِدِ أو نَفَقَةِ الْمَسْجِدِ أو مَصَالِحِ الْمَسْجِدِ صَحَّ لِأَنَّهُ وَإِنْ كان لَا يُمْكِنُ تَصْحِيحُهُ تَمْلِيكًا بِالْهِبَةِ لِلْمَسْجِدِ فَإِثْبَاتُ الْمِلْكِ لِلْمَسْجِدِ على هذا الْوَجْهِ صَحِيحٌ فَيَتِمُّ بِالْقَبْضِ كَذَا في الْوَاقِعَاتِ الْحُسَامِيَّةِ"
’’ایک شخص نے مسجد کی تعمیر یا مسجد کے اخراجات یا مسجد کی ضرورت اور فائدے کے لیے ایک درہم دیا تو وہ درست ہے کیوں کہ اگرچہ مسجد کو ہبہ کرکے اس کی ملکیت قراردینا درست نہیں لیکن اس طریقے سے مسجد کی ملکیت ثابت کرنا درست ہے چنانچہ وہ قبضے میں لے کرپوری ہوجاتی ہے۔‘‘
"والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد كذا في محيط السرخسي"
صحن مسجد کے تابع ہے۔چنانچہ اس کا حکم بھی مسجد ہی کا حکم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب