السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک کچی مسجد کو توڑ کر پختہ مسجد بنانے کا ارادہ کرکے نیو کھودوانا شروع کیا۔مسجد کے پچھم جانب نیو سے دو ہاتھ اور بڑھ کر اور تر جانب چھ ہاتھ مسجد سابق سے بڑھ کر نیو کھودوانا شروع کیا۔ایک گز نیچے کے اندر ہڈی آدمی کی نکلی۔یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ہڈی مسلمان کی ہے یا مشرک کی یا ہندو کی اور یہ بھی پوری شہادت کوئی بزرگان نہیں دے سکتے کہ ہم نے سنا ہے کسی بزرگوں کی زبانی کہ یہاں قبرستان ہے۔لیکن وہاں کے دیکھنے سے غالباً معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان کسی زمانے کا ہے ،ہندو یا مسلمان یا مشرک وغیرہ کسی کا ہو۔اگر اس نیو میں ہڈی نکل گئی تو اُس سے ہٹ کریا سابق مسجد کی نیو پر مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟دوسرے یہ کہ ہم نے مسجد کو توڑ دیا اور اُس زمین پر مسجد بنانا جائز نہ ہوتو ہم پر ازروئے خدا ورسول کے حکم کے کیا ہے؟ صاف جواب ہماری سمجھ کر مطابق تحریر فرمائیے گا۔(سائل :صاحب علی خان وعباس خان،از موضع بارہ ،ضلع غاز یپور ،ڈاکخانہ گہمر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے معلوم ہوا کہ اس جگہ کے دیکھنے سے غالباً معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ کسی زمانے کا قبرستان ہے۔مجھ کو جہاں تک معلوم ہے،وہ یہی ہے کہ اہل ہند کے قبرستان نہیں ہوا کرتے۔وہ لوگ اپنے مردوں کو جلا کر دریا میں بہادیا کرتے ہیں،پس اگر یہ صحیح ہے تو ایسی حالت میں غالب یہی ہے کہ وہ جگہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا قبرستان رہی ہے اور قبر پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے۔
پس اگر سابق مسجد کی زمین میں قبر ہونے کا ثبوت نہ ہوتو سابق مسجد کی نیو پر مسجد بنانا جائز ہے،بلکہ ضرور ہے کیونکہ جو زمین ایک دفعہ مسجد ہوچکی وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہوگئی پھر اُس کا احترام اور اس کی صفائی ہمیشہ کے لیے واجب ہے اور اس کی بے حرمتی اور اس کو نجاسات سے آلودہ کرنا حرام ہوگیا۔ہاں اگر سابق مسجد کی زمین کے اندر بھی قبر کے ہونے کا ثبوت ہوجائے۔تو اس صور ت میں وہ جگہ چھوڑ دی جائے اور دوسری جگہ مسجد بنائی جائے اور اس صورت میں سابق مسجد بھی جوبحالت لا علمی اُس زمین پر بنائی گئی تھی،در حقیقت مسجد نہ تھی اور نہ اس کی زمین جس پر وہ بنائی گئی تھی۔مسجد کی طرح قابل احترام ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
تا امکان خوب تحقیقات کرلی جائے۔اگر تحقیقات سے معلوم ہوجائے کہ وہاں پر کسی مسلمان کی قبر ہے تو وہاں پر مسجد نہ بنائی جائے،ورنہ ہڈیاں وہاں سے ہٹا کر مسجد بنائی جائے۔اصل اس مسئلے میں یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے،ہاں اگر قبر5 کو اوکھیڑ کر اس کی ہڈیاں وہاں سے ہٹادی جائیں تو وہاں پر مسجد بنانا جائز ہے۔کیونکہ اب وہ قبر نہیں رہی ،لیکن مسلمان کی قبر کے ساتھ ایسا کرنا اس کی توہین ہے۔اور مسلمان کی توہین جائزنہیں ہے۔اسی لیے اوپر لکھا گیا کہ اگر وہاں پر مسلمان کی قبر ہوتو مسجد نہ بنائے جائے ورنہ ہڈیاں ہٹا کر بنائی جائے۔مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح بنی ہے کہ پہلے وہاں پر مشرکین کی قبریں تھیں۔ان کو کھود کر اورہڈیاں وہاں سے ہٹا کر وہ مسجد مقدس بنائی گئی۔
صحیح بخاری میں ہے:
"باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد لقول النبي صلى الله عليه وسلم لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد"
’’کیا مشرکین جاہلیت کی قبروں کو اکھاڑا جائے اور ان کی مسجد جگہ بنالی جائے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یہود پر اللہ کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔‘‘
فتح الباری(260/1) میں ہے:
"فوجه التعليل أن الوعيد على ذلك يتناول من اتخذ قبورهم مساجد تعظيما ومغالاة كما صنع أهل الجاهلية وجرهم ذلك إلى عبادتهم، ويتناول من اتخذ أمكنة قبورهم مساجد بأن تنبش وترمى عظامهم، فهذا يختص بالأنبياء ويلتحق بهم أتباعهم، وأما الكفرة فإنه لا حرج في نبش قبورهم، إذ لا حرج في إهانتهم.(واللہ تعالیٰ اعلم)
یہ وعید بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ یہ وعید اس کے حق میں ہے ،جو نبیوں کی قبروں کو اکھاڑ کر اور ان کی ہڈیوں کو نکال کر انھیں سجدہ گاہیں بنالے۔یہ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے اور ان کے پیروکاروں کا بھی یہی حکم ہے۔لیکن کفار کی قبروں کو اکھاڑنے میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ ان کی اہانت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(کتبہ:محمد عبداللہ(22/شوال1331ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب