السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک قبرستان کے احاطہ کے اندر ایک مسجد ہے اور اس مسجد کے بائیں جانب بہت سی قبریں ہیں اور اس کے مشرق کے جانب بھی بہت قبریں ہیں۔ فقط اس کے دائیں جانب اور قبلے کی جانب قبریں نہیں ہیں،سو اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گورستان کے احاطہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد مندرجہ سوال میں جو احاطہ قبرستان کے اندر ہے لیکن نفس قبرستان سے علیحدہ جانب جنوب وشمال میں واقع ہے نماز پڑھنی درست ہے اس لیے کہ قبر اورقبرستان میں نماز پڑھنے کے بارے میں صرف دو ہی صورتیں نا جوازی کی حدیث شریف سے ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ قبر کی طرف نماز پڑھیں۔یعنی اس طرح نماز پڑھیں کہ قبر نمازی کے آگے ہو اور نمازی اور قبر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو۔دوسرے یہ کہ نفس قبرستان میں نماز پڑھیں۔انھیں دو صورتوں میں نماز پڑھنی ناجائز ہے ان کے سوا اور کسی صورت میں حدیث شریف سے اس بارے میں نماز پڑھنی ناجائز ثابت نہیں ہے۔
مسجد مندرجہ استفتا میں ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پا ئی نہیں جاتی ہے۔کیونکہ اس مسجد میں نماز پڑھنے پر نہ یہ صادق آتا ہے کہ قبر کی طرف یا قبر پر نماز پڑھی گئی اور نہ یہ صادق آتا ہے کہ عین قبرستان میں نماز پڑھی گئی،کیونکہ سوال سے ظاہرہے کہ وہ مسجد نفس قبرستان سے علیحدہ واقع ہے الفاظ حدیث شریف کے یہ ہیں:
عن ابي مرثد الغنوي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لا تجلسوا على القبور، ولا تصلوا إليها)(مسلم شریف:1412)[1]
ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف رخ کرے نماز پڑھو۔‘‘
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما (أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُصَلَّى فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ : فِي الْمَزْبَلَةِ ، وَالْمَجْزَرَةِ ، وَالْمَقْبَرَةِ ،(مشکواۃ شریف باب المساجد ومواضع الصلاۃ)[2]
’’ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہوں ،کوڑے کرکٹ کے ڈھیر،ذبح خانہ اور قبرستان۔۔۔میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا‘‘
یہ بھی واضح رہے کہ کسی امر کے شرعاً ثابت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کچھ فعل ہی میں منحصر نہیں ہے۔آپ کا قول،فعل ،تقریر،یہ سب حدیث میں داخل ہیں۔پس اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں نماز پڑھنا فعلاً ثابت نہ ہواور قولاً ثابت ہوتو اس قدر شرعاً اس کا جواز ثابت ہونے کے لیے کافی ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہندوستان میں کہیں نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور قولاً ثابت ہے تو اس قدر ہندوستان میں نماز پڑھنے کا جوازثابت ہوجانے کے لیے کافی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں نماز فعلاً ثابت ہے نہ قولاً بلکہ قولاً ممانعت ثابت ہے۔کما تقدم
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (971)
[2] ۔سنن ترمذی رقم الحدیث(346) سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (746) اس کی سند میں"زید بن جیرہ" راوی مترک اور سخت ضعیف ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب