سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) مسجد ضرار کا اطلاق کس مسجد پر ہوتا ہے؟

  • 22818
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 555

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسی مسجد کے بارے میں جس میں متولی نام نہادی پسربانی مسجد کا کبھی قول صریحی اپنی ملکیت کا ہو اور کبھی اس قول کے تعاقب پر قول صریحی سے انکار پر اُس سے افعال اور حرکات ایسے سرزد ہوتے ہیں، جو ملکیت پر اس کی سراسر دال ہیں، نماز پڑھنے کا ثواب مسجد کا ملے گا یا گھر کا؟ من جملہ افعال کے ایک فعل مزاحمت اصلاحِ مسجد ہے اور وہ اصلاح باتفاق تمامی نمازیان مسلمانان کے کی جاتی ہے اور اصلاح یہ ہے کہ ایک دروازہ جانب شمال متصل شارع عام دیوار میں صحن مسجد کے کھول کر قائم کیا جائے اور دیوار اسی جانب اور کچھ مغرب کی ایک حد مناسب تک پست کر دیں، ان دونوں امروں کے ہونے سے من جملہ اور فوائد کے یہ بہت بڑا فائدہ ہوگا کہ نمازِ عشاء کی مسجد میں، جو بوجہ خوفناک ہونے مسجد کے دید اور شنید سے صورت اور آواز مہیب متصل قبر نو احداث کے، متروک ہے، ہوا کرے گی اور یہ خوف تب ہی پیدا ہوا ہے، جب متولی اور وارثان بانی مسجد نے بزور خلاف رائے مسلمانوں کے اپنے باپ کو صحن مسجد میں دفن کیا ہے۔ یہ فعل بھی خالی از دلالت بر ملک نہیں۔ پس اگر بلحاظ اس مزاحمتِ اصلاح اور ملاحظہ دیگر امور شور و فساد کے جو اکثر باقدام متولی و برادران اس کے ہوا کرتا ہے، دوسری مسجد اتفاق سے تمامی نمازیان مسلمانان کے بنائی جائے تو اُس مسجد پر اطلاق مسجد ضرار کا ہوگا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد ضرار کا اطلاق اس مسجد پر ہوگا، جو مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کو قوت دینے اور مسلمانوں میں تفریقِ جماعت کرنے اور   الله و رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمنوں کی گھات بنانے کے لیے بنائی جائے، نہ کہ اس غرض سے جو سوال میں مذکور ہے، یعنی جو غرض سوال میں مذکور ہے، اس غرض سے جو دوسری مسجد بنائی جائے تو اس مسجد پر مسجدِ ضرار کا اطلاق نہ ہوگا۔  

 الله تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مَسجِدًا ضِرارًا وَكُفرًا وَتَفريقًا بَينَ المُؤمِنينَ وَإِرصادًا لِمَن حارَبَ اللَّهَ وَرَسولَهُ مِن قَبلُ... ﴿١٠٧﴾... سورة التوبة

[اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے   الله اور اس کے رسول سے جنگ کی]

لیکن مسجد سابق بدستور مسجد رہے گی، اس میں کسی کے دعوے ملکیت یا بے جا مزاحمت سے اس کا مسجد اور وقف ہونا باطل نہیں ہوسکتا۔ ہاں دعواے ملکیت یا بے جا مزاحمت کرنے والا البتہ بڑا گنہگار ہوگا۔ (کتبہ محمد عبداللہ(مہر مدرسہ)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:115

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ