سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) باہمی رنجش کی وجہ سے نئی مسجد بنانا

  • 22816
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 712

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپس کی رنجش و ضد کی وجہ سے کسی مسجد کو چھوڑ کر اور دوسروں سے چھوڑوا کر کسی دوسرے مکان میں نماز پڑھنا اور جماعت و جمعہ وغیرہ قائم کرنا اور اس میں عشرہ محرم میں بڑی تیاری کے ساتھ تعزیہ داری کی مجلس کرنا یا کوئی دوسری مسجد بنا کر (اور سابق مسجد خود چھوڑ کر اور دوسروں سے چھوڑوا کر) جماعت و جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں اور کرنے والا و بنانے والا اس کا کیسا ہے؟ صاف صاف خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مطابق لکھ بھیجیں، خدا اس کا اجر دے گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسجد کو خود چھوڑ کر اور دوسروں سے چھوڑوا کر کسی دوسرے مکان میں یا دوسری مسجد بنا کر نماز پڑھنا و جماعت و جمعہ قائم کرنا، اگر اس وجہ سے ہے کہ سابق مسجد میں خدا کی عبادت بطریق مشروع و مسنون ادا کرنے سے روکا جاتا ہے تو یہ چھوڑنا اور چھوڑانا اور دوسری مسجد بنانا جائز ہے، لیکن اگر اس و جہ سے ہے کہ یہ سابق مسجد میں خلافِ شرع کام کرنا چاہتا ہے اور اس سے لوگ روکتے ہیں یا دنیاوی رنجش و ضد کی وجہ سے دوسری مسجد بناتا ہے تو ان دونوں صورتوں میں اس کا بنانا جائز نہیں ہے۔ ایسی مسجد، مسجد ضرار ہے، کیونکہ بلا وجہ شرعی جماعت مسلمان میں تفریق کرنا ہے۔

  الله تعالیٰ سورہ توبہ، رکوع (۱۲) میں فرماتا ہے:

﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مَسجِدًا ضِرارًا وَكُفرًا وَتَفريقًا بَينَ المُؤمِنينَ وَإِرصادًا لِمَن حارَبَ اللَّهَ وَرَسولَهُ مِن قَبلُ ...﴿١٠٧﴾... سورةالتوبة

[اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے   الله اور اس کے رسول سے جنگ کی]

باقی تعزیہ داری کی مجلس کرنی، خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، گھر میں ہو یا مسجد میں، محض ناجائز ہے، اس کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ہے اور نہ حدیث شریف سے۔ یہ جاہلوں کی ایجاد ہے۔   الله کے بندوں کو قرآن مجید اور حدیث پر عمل کرنا چاہیے، نہ کہ جاہلوں کی ایجاد کی ہوئی باتوں پر جن کا ثبوت شرع شریف سے نہیں ہے۔

کتبہ: أبو الفیاض محمد عبد القادر، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:111

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ