سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) کسی جگہ پر مسجد کے احکام کب جاری ہوتے ہیں؟

  • 22815
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1575

سوال

(50) کسی جگہ پر مسجد کے احکام کب جاری ہوتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو شخصوں نے مل کر ایک مکان یا زمین بالاشتراک بارادہ بنانے مسجد کے خرید کیا اور دستاویز میں یہ مضمون درج ہوا:

’’مشتریان سوائے تعمیرِ مسجد یا دکان و مکان جو صرف متعلق مسجد ہوگا، دوسری چیز تعمیر نہ کریں۔ اگر سوائے تعمیرِ مسجد و متعلقات اس کے دوسرے مصرف میں لائیں تو بائع بہر حال مستحق فسخ کرانے بیع کے ہے، مشتریان کو کچھ عذر نہ ہوگا۔‘‘

چنانچہ حسبِ شرطِ بیع دونوں مشتریان نے تعمیرِ مسجد شروع کیا و باجازتِ مشتریان نماز بھی پنجگانہ باذان وجماعت ہونے لگی و منجملہ خریداران کے ایک شخص چند روز کے بعد مرگیا۔ اب شخص خریدار حی القائم مسجد کو تعمیر کر رہا ہے ودیوار مسجد باندازہ قد آدم تیار ہوگئی ہے، وہ جگہ ازروے حکم شرع شریف موقوفہ سمجھی جائے گی اور اس پر احکام مسجد کے جاری ہوں گے یا نہیں؟ یا جب تک مسجد بہر صورت تیار نہ ہوجائے اور خریدار تمام مشتہر کر کے با ضابطہ وقف نامہ بھی مرتب نہ کرے، وقف نہ سمجھی جائے گی؟ اس کا جواب مدلل دیجیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ جگہ جس کا سوال میں ذکر ہے، ازروئے شرع شریف موقوفہ سمجھی جائے گی اور اس پر احکام مسجد کے جاری ہوں گے اور اس کے موقوفہ سمجھے جانے اور اس پر احکام مسجد کے جاری ہونے میں اس کا بہر صورت مسجد تیار ہوجانا و خریدار کا تمام مشتہر کر کے باضابطہ وقف نامہ مرتب کرنا ازروئے شرع شریف کے کچھ شرط نہیں ہے۔ فتاویٰ عالمگیری (ص: ۵۴۶)

مطبوعہ ہو گلی ۱۲۵۸ھ میں مرقوم ہے:

"ذکر الصدر الشھیدرحمه الله في الواقعۃ في باب العین من کتاب الھبة والصدقة: رجل لہ ساحة، لا بناء فیھا، أمر قوماً أن یصلوا فیھا بجماعة، فھذا علٰی ثلاثة أوجہ: أحدھا: أما إن أمرھم بالصلاۃ فیھا أبداً نصا بأن قال: صلوا فیھا أبدا، أو أمرھم بالصلاة مطلقاً، و نویٰ الأبد ففي ھذین الوجھین، صارت الساحة مسجداً، لو مات لا یورث عنہ، وأما إن وقت الأمر بالیوم أو الشھر أو السنة، ففي ھذا الوجہ لا یصیر الساحة مسجداً، لو مات یورث عنہ، کذا في الذخیرة، وھکذا في فتاویٰ قاضي خان"[1]

[ایک شخص کا میدان ہے، جس میں کوئی عمارت نہیں ہے، اس نے لوگوں کو کہا کہ وہ اس میں باجماعت نماز ادا کر لیں۔ یہ تین طرح سے ہوگا: پہلا: یا تو وہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے نماز پڑھنے کا کہے، مثلاً: صراحت سے کہے کہ تم اس میں ہمیشہ نماز پڑھا کرو یا انھیں مطلقاً نماز پڑھنے کا کہہ دے اور ہمیشہ کی نیت کرے تو ان دونوں صورتوں میں وہ میدان مسجد بن جائے گا۔ اگر وہ فوت ہوگیا تو وہ جگہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی۔ لیکن اگر وہ اپنی بات کے ساتھ دن یا مہینے یا سال کی تحدید کرتا ہے تو اس صورت میں وہ میدان مسجد نہیں ہوگا۔ اگر وہ فوت ہوجائے تو وہ جگہ وراثت میں تقسیم ہوگی]

عبارت منقولہ بالا سے ظاہر ہے کہ کسی زمین کے مسجد ہوجانے کے لیے اس پر بنا کا ہونا کچھ ضروری نہیں۔ محض ساری زمین بلا بنا کے مسجد ہو جاتی ہے اور اس پر احکام مسجد کے جاری ہوتے ہیں، جبکہ صاحبِ زمین نے اس میں لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، یعنی صرف اس قدر کہہ دے کہ اس میں ہمیشہ نماز پڑھا کرو یا ہمیشہ کا لفظ بھی نہ کہے، صرف اس قدر کہے کہ اس میں نماز پڑھا کرو اور ہمیشہ کی نیت رہے، ان دونوں صورتوں میں زمین مذکور مسجد ہوجائے گی اور احکام مسجد کے اس پر جاری ہوں گے۔


[1]   فتاویٰ عالمگیری (الفتاویٰ الھندیۃ: ۲/ ۴۵۵) نیز دیکھیں: فتاویٰ قاضی خان (۳/ ۲۹۱)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:110

محدث فتویٰ

تبصرے