ایسی مسجد جس کو ایک مسلمان نے ہندو کے رویے سے اس طرح کہہ کر بنوائی ہے کہ اگر تم فلاں مقدمہ جیتو تو میری بستی میں مسجد بنوا دیجیو،چنانچہ بحسب اتفاق وہ مقدمہ سرسبز ہوا اور ہندو نے روپے دیے اور مسلمان نے مسجد بنوائی،حکم مسجد رکھتی ہے یا نہیں اور اس میں ثواب نماز پڑھنے کا ہوگا یانہیں؟اس مسجد کو توڑوا کر سب مسلمان بھائی حلال مال سے پھر بنواسکتے ہیں یا نہیں؟نفس زمین اس کی بطور موقوف جائز ہے۔اگر بمعاملہ شر وفساد اس کو توڑ واکر بنوانہ سکیں تو دوسری مسجد دوسری جگہ اس بستی میں بننے سے مصداق مسجد ضرار تو نہ ہوگی؟
مسجد مذکور حکم مسجد رکھتی ہے اور اس میں ثواب نماز پڑھنے کا ہوگا اور اس مسجد کاتوڑنا جائز نہیں ہے۔اسلیے کہ مسجد کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جس کے خرچ سے بنے،وہ مسلمان بھی ہو۔خود کعبہ کو دیکھئے کہ کافروں نے اس کو زمانہ جاہلیت میں بنایا تھا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قائم رکھا اور اسی کی طرف منہ کرکے برابر نماز پڑھتے رہے اور فتح مکہ کے بعد بھی اس کو نہ توڑا۔ہاں توڑنے کو ضرورفرمایا تھا لیکن اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ کافروں کا بنوایا ہوا تھا۔بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس قاعدے پر اس کو بننا چاہیے تھا اس قاعدے پر نہیں بنایا گیا تھا۔[1]
غرض کہ مسجد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ا س کا بانی یا جس کے خرچ سے بنے وہ مسلمان بھی ہو۔ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جب تک وہ شخص مومن نہ ہوگا خود اس کو مسجد کے بنانے اور بنوانے کا کچھ ثواب نہ ہوگا۔
ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں ،جس پر آندھی والے دن میں ہوا بہت سخت چلی۔وہ اس میں سے کسی چیز پرقدرت نہ پائیں گے۔
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کسی چٹیل میدان میں ایک سراب کی طرح ہیں جسے پیاسا پانی خیال کرتاہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا۔(کتبہ:محمد عبداللہ۔مہرمدرسہ)
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(؟) صحیح مسلم رقم الحدیث (1333)