ایک مسجد واقع بڑھئی ٹولہ قریب اسٹیشن ریلوے مظفر پور ایک مدت دراز سے قائم ہے۔اب سرکار چاہتی ہے کہ برضا مندی اہل اسلام مسجد مذکور کو توڑ کر سڑک ریلوے درست کرے اور معاوضہ میں اس کے جیسی مسجد مسلمانان جس قدر خرچ سے جہاں کہیں تعمیر کرانا چاہیں گے سرکار بنوادے گی اور بصورت نہ راضی ہونے مسلمانوں کے وہ مسجد حسب دفعہ ایکٹ(10/1870ء) بضرورت سرکار توڑ دی جائے گی۔پس ایسی مجبوری میں شریعت سے جو حکم ہو،صاف صاف بحوالہ کتب وصفحہ وسطر وغیرہ کے تحریر فرمائیے۔بینوا توجروا فقط۔المستفتی :مولوی محمد عبدالجلیل محمدی مظفر پوری۔
ازروئے قانون وقف مذہب اسلام مسجد ملک خدا کی ہے کسی شخص کی جائیداد نہیں ہے۔ہرمسلمان اس میں خدا کی عبادت بجا لانے کا یکساں استحقاق رکھتا ہے۔نہ اس کو کوئی توڑنے کی اجازت دے سکتا ہے نہ اس کا معاوضہ لینے کا کوئی مجاز ہے۔
"من بني مسجد لم يزل ملكه عنه حتي يفرزه عن ملكه بطريقة وباذن بالصلاة فيه اما الا فراز فلانه لا يخلص لله تعالي الا به كذا في الهداية(فتاویٰ عالمگیری بہ چھاپہ کلکتہ:2/545سطر:15)
جس نے مسجد بنائی تو اس وقت تک اس کی ملکیت ختم نہیں ہوگی۔جب تک وہ ایک طریقے سے اس کو اپنی ملکیت سے الگ نہ کردے اور نماز کی اجازت دے۔ملکیت سے الگ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ صرف اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ہوسکتا ہے۔
"في وقف الخصاف:اذا جعل ارضه مسجدا وبناه واشهد ان له ابطاله وبيعه فهو شرط باطل ويكون مسجدا كما لوبني مسجدا لاهل محلة وقال:جعلت هذا المسجد لاهل هذه المحلة خاصة كان لغير اهل تلك المحلة ان يصلي فيه هكذا في الذخيرة"(فتاویٰ عالمگیر بہ طبع کلکتہ:2/547)سطر:19)
اگر وہ اپنی زمین کو مسجد کے لیے دے اور اسے تعمیر کرے اور گواہی دے کہ وہ اس کو ختم کرسکتا اور بیچ سکتا ہے تو یہ شرط باطل ہے اور وہ مسجد ہی رہے گی جیسا کہ اگر وہ ایک محلےوالوں کے لیے مسجد بنائے اور کہے کہ میں نے یہ مسجد صرف اس محلے والوں کے لیے بنائی ہے تو اس کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر میں زمین ملی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:مجھے ایک زمین ملی ہے کہ اس سے عمدہ مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا:اگر تم چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اس(کی آمدنی) صدقہ کردو۔چناں چہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے صدقہ کردیا کہ اس کی اصل فروخت اور ہبہ نہ کی جائے اور نہ وراثت ہی میں تقسیم ہو۔وہ فقراء قرابت داروں، غلام آزاد کرانے،راہ خدا میں ،مہمانوں اورمسافروں میں تقسیم کی جائے۔اس کے نگران پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ خود اس میں سے اچھے طریقے سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے ،لیکن مال جمع کرنے والا نہ ہو۔
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2613)