سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) اگر کنویں میں کتا گرجائے؟

  • 22801
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 981

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک کنویں میں بہت سا  پانی ہے اور اس میں ایک کتے کا بچہ گر  پڑا اور زندہ نکال لیا گیا۔اب دریافت طلب یہ بات ہے کہ پانی کنویں کا ناپاک ہے یا پاک؟بعض جہلا کہتے ہیں کہ جب تک کل پانی نہ نکالا جائے،تب تک پاک نہیں ہوسکتا۔آیا وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں یا غلط؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کتے کابچہ کنویں سے نکال لیا گیا اور کنویں میں پانی بہت سا ہے تو اگر پانی دو قلہ یا دوقلے سے زیادہ ہے تو اس کنویں کا پانی پاک ہے۔حجۃ اللہ البالغۃ(1/147 مصری) میں ہے:

وَ عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: ( إِذَا كَانَ اَلْمَاءَ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلْ اَلْخَبَثَ)[1] (الي) وانما جعل القلتين حدا فاصلا بين الكثير والقليل لا مر ضروري لا بد منه وليس تحكما ولا جزافا وكذا سائر المقادير الشرعية(الي قوله) وقد اطال القوم في فروع موت الحيوان في البئر والعشر في العشر والماء الجاري وليس في كل ذلك حديث عن النبي صلي الله عليه وسلم البتة واما الأثار المنقولة عن الصحابة والتابعين كاثر ابن الزبير في الزنجي وعلي رضي الله تعالي في الفارة والنخعي والشعبي في نحو السنور فليست مما يشهد له المحدثون بالصحة ولا مما اتفق عليه جمهور اهل القرون الاولي وعلي تقدير صحتها يمكن ان يكون ذلك تطييبا للقلوب وتنظيفا للماء لا من جهة الوجوب الشرعي كما ذكر في كتب المالكية ودون نفي هذ الاحتمال خرط الفتاد وبالجملة فليس في هذا الباب  شئي يعتد به ويجب العمل عليه وحديث القلتين اثبت من ذلك كله بغير شبهة ومن المحال ان يكون الله تعالي شرع في المسائل (لعباده شئيا زيادة)علي ما لا ينفكون عنه من الارتفاقات وهما مما يكثر وقوعه ونعم به البلوي ثم لا ينص عليه النبي صلي الله عليه وسلم نصا جليا ولا يستفيض في الصحابة ومن بعدهم ولا حديث واحد فيه والله تعالي اعلم[2]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔جب  پانی دو قلے ہوتو وہ گندگی نہیں اٹھاتا۔آب کثیر اور آپ قلیل کے درمیان قلیتین کو ایک ضروری امر کی وجہ سے حد فاصل ٹھہرایا  ہے کسی زبردستی یا اٹکل کے سبب یہ حد بندی نہیں کی اور تمام مقادیر شرعیہ کا یہی حال ہے کہ کسی کے اندر بھی زبردستی اور اٹکل کا دخل نہیں ہے۔پھر لوگوں نے کنویں کے اندر جاندار کے مرجانے  دہ در دہ اور بہنے والے پانی کے متعلق بہت زیادہ جزئی مسائل نکال لیے حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ان سب مسائل کے متعلق قطعاً احادیث مروی نہیں ہیں،البتہ جوآثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے مثلا:ابن زبیر سے زنگی کے متعلق علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے چوہیا کے بارے میں اور نخعی اور شعبی سے بلی جیسے جانور کے متعلق مروی ہیں۔ان کے متعلق محدثین نے صحت کی گواہی دی ہے نہ قرون اولیٰ کے جمہور کا ان پر اتفاق ہے۔ اگر وہ آثار صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ وجوب شرعی کے طور پر نہیں بلکہ لوگوں کے دل مطمئن کرنے اور پانی کی نظافت کے لیے ہوں جیسا کہ کتب مالکیہ میں مذکور ہے۔اگر یہ احتمال صحیح نہیں ہے۔تو اس میں سخت دقت ہے۔المختصر اس باب میں کوئی قابل اعتماد اور واجب العمل شے نہیں ہے اور حدیث قلتین بلاشبہ ان سب سے زیادہ ثابت ہے نیز یہ امر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مسائل میں اپنے بندوں کے لیے ان تدابیر کے اوپر جو ان کے اوپر لازم ہیں۔کچھ بڑھایا ہو اور باوجود ان چیزوں کے کثرت و قوع اور عموم بلوی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے متعلق کوئی واضح حکم نہ دیا ہو اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں وہ معروف نہ ہوا ہو اور اس بارے میں ایک بھی حدیث نہ ہو۔(کتبہ محمد عبداللہ(8شعبان 1332ھ)


[1] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(63) سنن الترمذی رقم الحدیث(67) سنن النسائی رقم الحدیث(52) نیز دیکھیں ارواءالغلیل(160)

[2] ۔حجۃ اللہ البالغہ(ص:388۔391)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ