ایک کنویں میں بہت سا پانی ہے اور اس میں ایک کتے کا بچہ گر پڑا اور زندہ نکال لیا گیا۔اب دریافت طلب یہ بات ہے کہ پانی کنویں کا ناپاک ہے یا پاک؟بعض جہلا کہتے ہیں کہ جب تک کل پانی نہ نکالا جائے،تب تک پاک نہیں ہوسکتا۔آیا وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں یا غلط؟
جب کتے کابچہ کنویں سے نکال لیا گیا اور کنویں میں پانی بہت سا ہے تو اگر پانی دو قلہ یا دوقلے سے زیادہ ہے تو اس کنویں کا پانی پاک ہے۔حجۃ اللہ البالغۃ(1/147 مصری) میں ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔جب پانی دو قلے ہوتو وہ گندگی نہیں اٹھاتا۔آب کثیر اور آپ قلیل کے درمیان قلیتین کو ایک ضروری امر کی وجہ سے حد فاصل ٹھہرایا ہے کسی زبردستی یا اٹکل کے سبب یہ حد بندی نہیں کی اور تمام مقادیر شرعیہ کا یہی حال ہے کہ کسی کے اندر بھی زبردستی اور اٹکل کا دخل نہیں ہے۔پھر لوگوں نے کنویں کے اندر جاندار کے مرجانے دہ در دہ اور بہنے والے پانی کے متعلق بہت زیادہ جزئی مسائل نکال لیے حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب مسائل کے متعلق قطعاً احادیث مروی نہیں ہیں،البتہ جوآثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مثلا:ابن زبیر سے زنگی کے متعلق علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چوہیا کے بارے میں اور نخعی اور شعبی سے بلی جیسے جانور کے متعلق مروی ہیں۔ان کے متعلق محدثین نے صحت کی گواہی دی ہے نہ قرون اولیٰ کے جمہور کا ان پر اتفاق ہے۔ اگر وہ آثار صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ وجوب شرعی کے طور پر نہیں بلکہ لوگوں کے دل مطمئن کرنے اور پانی کی نظافت کے لیے ہوں جیسا کہ کتب مالکیہ میں مذکور ہے۔اگر یہ احتمال صحیح نہیں ہے۔تو اس میں سخت دقت ہے۔المختصر اس باب میں کوئی قابل اعتماد اور واجب العمل شے نہیں ہے اور حدیث قلتین بلاشبہ ان سب سے زیادہ ثابت ہے نیز یہ امر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مسائل میں اپنے بندوں کے لیے ان تدابیر کے اوپر جو ان کے اوپر لازم ہیں۔کچھ بڑھایا ہو اور باوجود ان چیزوں کے کثرت و قوع اور عموم بلوی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی واضح حکم نہ دیا ہو اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں وہ معروف نہ ہوا ہو اور اس بارے میں ایک بھی حدیث نہ ہو۔(کتبہ محمد عبداللہ(8شعبان 1332ھ)
[1] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(63) سنن الترمذی رقم الحدیث(67) سنن النسائی رقم الحدیث(52) نیز دیکھیں ارواءالغلیل(160)
[2] ۔حجۃ اللہ البالغہ(ص:388۔391)