سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) کیا انگریزی زبان سیکھنا درست ہے؟

  • 22795
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1888

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص اپنی اولاد یا بھائی کو قرآن مجید مع ترجمہ و قدرے صرف و نحو و عقائد و حدیث پڑھا کر علم انگریزی پڑھوائے و انگریزی کے ساتھ علم دینی بھی پڑھاتا جائے آیا یہ انگریزی پڑھوانا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی زبان فی نفسہ مذموم نہیں ہے ہاں ناجائز بات بولنا خواہ کسی زبان میں ہوا البتہ مذموم ہے۔ زبانوں کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَمِن ءايـٰتِهِ خَلقُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلـٰفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلو‌ٰنِكُم ...﴿٢٢﴾... سورة الروم

یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے آسمان اور زمین کا بنانا اور تمھاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت میں یقیناً رسول بھیجا ہے اور جب کبھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا ہے تو اسی قوم کی زبان میں بھیجا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا... ﴿٣٦﴾... سورة النحل

"یعنی بے شبہہ ہے اور بالیقین ہم نے ایک امت میں ایک رسول بھیجا ہے۔"

نیز فرماتا ہے:

﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ...﴿٤﴾... سورة ابراهيم

"یعنی ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں۔"

ان آیات سے بخوبی ثابت ہے کہ انگریزوں کی طرف بھی بالیقین کوئی رسول بھیجا گیا ہے اور جو رسول بھیجا گیا ہے انھیں کی زبان میں بھیجا گیا ہےاس سے معلوم ہوا کہ کوئی زبان انگریزی ہو یا اور کوئی فی نفسہ مذموم نہیں ہے  اس سے ثابت ہوافی نفسہ کسی زبان کا سیکھنا یا سکھانا ممنوع نہیں ہے بلکہ اگر کسی زبان کے سیکھنے یا سکھانے سے کوئی نیک غرض متعلق ہو تو اس کا سیکھنا یا سکھانا موجب اجرو ثواب ہے۔

عن زيد بن ثابت رضي الله تعالي عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم امره ان يتعلم كتاب اليهود حتي كتبت للنبي صلي الله عليه وسلم كتبه واقراته كتبهم اذا كتبوااليه[1](رواہ البخاری)

یعنی زید بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو حکم کیا کہ یہودیوں کا لکھنا سیکھ لیں انھوں نے یہودیوں کا لکھنا سیکھ لیا یہاں تک کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطوط یہودیوں کے پاس لکھ بھیجتے اور یہودیوں کے خطوط جو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتے تو ان کو پڑھ کر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا دیتے ۔(بخاری شریف مطبوعہ احمدی 1068/2)


[1] ۔صحیح البخاری مع فتح الباری (186/13)امام البخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ حدیث تعلیقاً ذکر کی ہے البتہ امام ابو داود (3645)اور امام ترمذی (2715)نے اسے موصولاً روایت کیا ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ