سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) قرآن و حدیث کی تعریف

  • 22790
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1336

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔قرآن یعنی کلام اللہ کس کو کہتے ہیں؟

2۔حدیث یعنی حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کس کو کہتے ہیں؟

3۔اصطلاح شرح میں حدیث قدسی کس کوکہتے ہیں؟

4۔ہم مسلمان بہت آسانی کے ساتھ کیونکر معلوم کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف اور حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور حد یث قدسی میں کیا فرق ہے؟

5۔عام طور پر یہ جو مشہور ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ اور اس کا مفہوم یہ دونوں منزل من اللہ ہیں اور حدیث شریف کا مفہوم تو مع حدیث قدسی محض قرآن پاک کا ہے اور اس کے الفاظ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہیں۔یہ خیال عوام کا کیسا ہے؟

چونکہ ترمذی میں ایک حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

فضل كلام الله على سائر الكلام كفضل الله على خلقه

(سنن الترمذی رقم الحدیث(2926)سنن الدارمی (533/2)اس کی سند میں "عطیہ عوفی" راوی ضعیف ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃرقم الحدیث 1335))

یعنی بزرگی کلام اللہ کی تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے بزرگی اللہ عزوجل کی اپنی مخلوق پر۔

اب میں محض اسی وجہ سے کہ حدیث شریف اور کلام اللہ کو اگر کلام الٰہی مان لوں اور درحقیقت قرآن کلام الٰہی اور حدیث شریف صرف کلام رسول ہوا تو دونوں کو بحیثیت کلام مساوی ماننے کی حالت میں ایسا نہ ہوکہ شرک لازم آجائے اس لیے بخوف

 "حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ"

اس مسئلے کی تحقیق کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔امید ہے کہ آپ بھی برائے خدااگر کوئی فرق ہو تو اس باریکی سے مطلع فرمائیں اگر نہ ہوتوتحریر فرمادیجئے تاکہ اس کے موافق عمل کریں کیونکہ حدیث کے ماننے میں تو ہمارا پورا عقیدہ ہے کہ بموجب حکم خدا "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"

حدیث و قرآن کو اپنا واجب العمل گردانتے ہیں کیونکہ جب ہم خدااور رسول کے ماننے کا اقرار کرتے ہیں تو اس صورت میں ماننے والے دونوں کے ہیں لیکن خدائے تعالیٰ کو خداتعالیٰ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کا رسول جانتے ہیں۔کیونکہ "رب"اور"عبد"کا فرق نہ کرنے کی صورت میں شرک لازم آجائے گا اسی وجہ سے کلام رب اور کلام عبد میں فرق کرنے کا خیال ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ جناب کی خدمت میں اپنے شکوک کو پیش کیا گیا۔المستفتیی:سید جواد علی رضوی ۔تاریخ 15/جمادی الاول 1331ھ۔از علی گڑھ بازار سبزی منڈی ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔قرآن اللہ تعالیٰ کے اس کلام مقدس کو کہتے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہوا جس کا نزول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر بطریق تو اتر ثابت ہوا جس کے ساتھ مخالفین اسلام سے تحدی یعنی معارضہ طلب کیا گیا

﴿قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ ...﴿٨٨﴾... سورةالإسراء

جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عہد میں جمع کیا گیا جس کی نقلیں حضرت عثمان ذوالنوین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کرا کر تمام اسلامی دنیا میں شائع کیا جو آج تک تمام دنیا میں شائع ہے جس کو اس وقت سے اب تک ہر زمانے میں لاکھوں حافظ حفظ کرتے چلے آئے۔

2۔حدیث یعنی حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس قول و فعل اور تقریر کو کہتے ہیں جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب ہو یا وہ قول جس کی نسبت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہوکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور وہ مندرجہ قرآن نہ ہو گووہ قول و فعل یا تقریر کلام الٰہی ہی سے ماخوذ ہو لیکن اس کی نسبت صراحتاًفرمایا گیا ہوکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

3۔اصطلاح شرع میں حدیث قدسی (حدیث الٰہی) اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تصریح فرما دی ہوکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جیسے:

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ "النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ" (متفق علیه مشکوة ص:487)[1]

(سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا کہ اللہ تعالیٰ نے فر ما یا : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیارکیا ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا ہے کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی آیا ہے)

4۔ان تینوں امور میں فرق جوابات نمبرہائے مذکورہ بالا سے بآسانی معلوم کر سکتے ہیں۔

5۔قرآن پاک کے الفاظ یقیناً باًعیا نہا منزل من اللہ ہیں اور حدیث شریف کے الفاظ کی نسبت یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ منزل من اللہ ہیں اگرچہ حدیث قدسی ہی کیونکہ نہ ہو لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ حدیثیں جو فی الواقع رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صادر ہوئی ہیں جو متعلق بہ تبلیغ رسالت ہیں وہ داخل وحی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم

(اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے)

اور حدیث ترمذی منقولہ سوا ل نمبر(5)نہیں ہے اس میں ایک راوی عطیہ ہے جو کثیر الخطا اور مدلس ہے اور اس نے اس حدیث کو"عن "کے ساتھ روایت کی ہے اور مدلس جو حدیث "عن"کے ساتھ کرے وہ حدیث صحیح نہیں ہے اور ابو سعید جس سے عطیہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے معلوم نہیں کون ہے؟ ظن غالب یہ ہے کہ یہ ابوسعید محمد بن سائب کلبی ہے جو متہم بکذب و متہم بالوضع ہے ۔(واللہ تعالیٰ اعلم)(کتبہ : محمد عبد اللہ (15/جمادی الاولیٰ 1331ھ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (3071)صحیح مسلم رقم الحدیث (2414۔)مشکاۃ المصابیح (220/3)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ