سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا مذاق اڑانا اور تفاسیر صحابہ کی حجیت

  • 22788
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1098

سوال

(340) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا مذاق اڑانا اور تفاسیر صحابہ کی حجیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر ہنسی اور تمسخر کرنا کیسا ہے؟

2۔تفاسیر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اوروں کی تفاسیر پر مقدم ہیں یانہیں ؟سائل :مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر ہنسی اور تمسخر کرنا ایسے احمق ،نادان یا سخت بیہودہ لوگوں کا کام ہے جو ان بزرگوں کے فضائل و مناقب سے بے خبر یا منکر ہیں بھلا کوئی ایسا شخص جو اس بات کو جانتا اور ایمان رکھتا ہوکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے

أَكْرِمُوا أَصْحَابيِ ، فَإنَّهُمْ خِيَارُكُمْ [1]

(میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا احترام کرو کیوں کہ وہ تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں) اور فرمایا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلا نَصِيفَهُ "

: [2](یقیناً اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا(راہ خدا میں) خرچ کرے تو وہ ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ) کے ایک مد(تقریباًآدھا کلو)یا اس کے آدھے حصے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا)

ان بزرگوں پر ہنسی اور تمسخر کر سکتا ہے؟ہر گز ہرگز نہیں ۔ہاں صرف اتنی بات کہ"کسی شخص (کائناًمن کان)کے قول کو اس وجہ سے قبول نہ کرنا کہ قول مذکوراس شخص کی محض ایک رائے ہے۔"کوئی قابل ملامت امر نہیں ہےاور نہ یہ اس شخص پر ہنسی اور تمسخر کرنے میں معدود ہو سکتا ہے۔ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاص اپنی رائے کی نسبت صاف فرمادیا کہ

إذا أمرتُكُم بشيءٍ مِن دينكم، فخذوا به. وإذا أمرتُكُم بشيءٍ مِن رَاْيٍ، فإنما أنا بشر [3]

(جب میں تمھیں اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو میں صرف ایک بشر ہوں)تو دوسرے کسی شخص کی رائے کس شمار و قطار میں ہے؟

2۔تفاسیر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بلکہ تمام آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  جو مرفوع حکمی کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں تمام پچھلوں کی تفاسیر اور اقوال اور آرائے محض پر بلا شبہہ مقدم ہیں کیونکہ تفاسیر و آثار مذکورہ در حقیقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تفاسیر اور اقوال اور افعال اور تقاریر ہیں۔(واللہ تعالیٰ اعلم)(کتبہ محمد عبد اللہ (14ذی القعدہ329ھ)


[1] ۔سنن الکبری (387/5)مشکاۃ المصابیح (308/3)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(3470)صحیح مسلم رقم الحدیث 2541)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث( 2215)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

تبصرے