اس حدیث مَن رَأى مِنكُم مُنكَرَاً الخ کا بہتر مطلب جو الفاظ حدیث سے ملتا جلتا ہوکیا ہے؟اس لیے کہ شراح حدیث نے اس حدیث کا مطلب کئی طورسے بیان کیا ہے۔(سائل عبد الرحیم از لاہور)
حدیث :
(جو تم میں سے برائی دیکھے تواسے اپنے ہاتھ کے ساتھ بدل دے ۔پس اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان کے ساتھ پھر اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل کے ساتھ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے) کا مطلب میری سمجھ میں اس سے بہتر اور کوئی نہیں آتا کہ اس حدیث میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتیں بیان فرمائی ہیں۔
1۔مسلمانوں کی باعتبار قوت و ضعف کے کتنی قسمیں ہیں۔
2۔یہ کہ ان قسموں میں سے ہر ایک کا فرض کیا ہے؟
پس فرمایا کہ مسلمانوں کی باعتبار قوت و ضعف کے تین قسمیں ہیں ایک اقوی جیسے یا اختیار حکام جو اپنے پورے اختیار سے منکر کو مٹاسکتے ہیں ان کا فرض یہ ہے کہ وہ منکرکو اپنے ہاتھ سے مٹا چھوڑیں۔ دوم اوسط جیسے وہ علماء جو منکر کو اپنے ہاتھ سے تونہیں مٹاسکتے مگر صرف زبان سے منع کر سکتے ہیں پس ان کا فرض یہ ہے کہ صرف زبان سے مناسب طریقے سے منع کردیں۔
(اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا)
سوم اضعف جیسے وہ لوگ جو ہاتھ سے مٹانا تو درکنار زبان سے بھی منع نہیں کر سکتے ان کا فرض یہ ہے کہ صرف دل سے اس منکرکو برا جانیں و بس
اس بیان سے ظاہر ہوا کہ اس حدیث میں قوت اور ضعف سے ایمانی قوت اور ضعف مراد نہیں ہے بلکہ تغیر منکر کے متعلق قوت اور ضعف مراد ہے حتی کہ اگر کوئی شخص جو ایک درجے کا ایمان رکھتا ہو۔جب تک وہ قسم سوم کے افراد سے ہے اس کا فرض وہی ہے جو قسم دوم سے قسم اول کی طرف ترقی کر جائے تو اس کا فرض ہو جائے گا اگرچہ ایمانی حالت اس کی بد ستور ہو۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)کتبہ : محمد عبد اللہ (19جمادی الاولیٰ 32ھ)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (49)