آیت کریمہ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ (تو اسے پا یا کہ وہ دلدل والے چشمے میں غروب ہو رہا ہے)کاصحیح معنی اور تفسیر کیا ہے؟مخالفین اسلام کا عقلاً جو اس پر اعتراض ہوتا ہے اس کا جواب کیونکر ہے؟
جواب۔مخالفین جو اس آیت پر اعتراض کرتے ہیں وہ لفظ وَجَدَهَا کا خیال نہیں کرتے اگر وَجَدَهَا کا لحاظ کرلیں تو کوئی اعتراض نہیں مخالفین کی یہی غلطی ہے ایسا بہت ہو تا ہے کہ ایک چیز واقع میں کچھ ہوتی ہے اور کسی وجہ سے معلوم کچھ ہوتی ہے ۔پانی کے کنارے صبح یا شام کو کھڑے ہوں تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ آفتاب پانی سے نکل رہاہے یا پانی میں ڈوب رہا ہے حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے اسی حالت کا بیان اس آیت میں ہے کہ آفتاب ذوالقرنین کو ایک چشمہ میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوا۔ حالانکہ ایسا نہ تھاا لحاصل مخالفین کا جو اعتراض یہاں پر ہے اس کا کافی جواب خود لفظ وَجَدَهَا میں موجود ہے۔(کتبہ محمد عبد اللہ (8/محرم 1331ھ)