کیامردے سنتے ہیں یا نہیں؟اگر سنتے ہیں تو:" نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوس والی حدیث کا کیامطلب ہے؟(مرسلہ:ابو اسحاق عبداللہ صاحب مدرس مدرسہ شمسیہ ،ویرووال مسجد اہل حدیث متصل تھانہ۔ضلع امرتسر )
آیت: إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ اورآیت وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں۔اور اسی کی تائید حدیث نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوس دلہن کی طرح سوجا"سے بھی ہوتی ہے،
لیکن بعض احادیث صحیحہ سے خاص اوقات ومواقع میں مردوں کا سنناثابت ہے ،جیسے حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،جس میں یہ لفظ واقع ہے:
"وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے"
اور جیسے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،جس میں یہ لفظ واقع ہے:
"تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے"
اور جیسے حدیث بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،جس سے یہ لفظ واقع ہے:
جب وه قبرستان جانے کا ارادہ کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے:"اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔۔۔الخ"
پس دونوں آیات مذکورہ بالا اور ان احادیث کے درمیان جمع وتوفیق کی صورت یہ ہے کہ مرُدے سنتے نہیں،لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی خاص وقت یا کسی خاص موقع میں ان کو سنانا چاہتا ہے تو وہ سن لیتے ہیں۔
تفسیر فتح البیان مصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب(7/85) میں ہے:
"وظاهر نفي سما ع الموتيٰ العموم ‘فلا يخص منه الا ما ورد بدليل‘كمايثبت في الصحيح انه صلي الله عليه وسلم خاطب القتليٰ في قليب بدر‘فقيل له ;يا رسول الله صلي الله عليه وسلم انما تكلم اجساد ا لا ارواح لها؟وكذلك ما ورد من ان الميت يسمع خفق نعال المثيعين له اذا انصرفوا"انتهي"مردوں کے سننے کو نفی کا ظاہری مفہوم اس کا عموم ہے،اس سے صرف وہی خاص ہوسکتاہے،جو دلیل کے ساتھ وارد ہوا ہو،جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے ایک کنویں میں پڑے ہوئے مقتولین سے خطاب کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ایسے جسموں سے کلام کررہے ہیں،جن میں روحیں نہیں ہیں؟اسی سلسلے میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ مردہ اس وقت رخصت کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ کوسنتاہے ،جب وہ اسے رخصت کرکے واپس لوٹتے ہیں"
فتح الباری شرح صحیح بخاری(5/704) میں ہے:
وقال بن التين: (لا معارضة بين حديث ابن عمر والآية؛ لأن الموتى لا يسمعون بلا شك, لكن إذا أراد الله إسماع ما ليس من شأنه السماع لم يمتنع )كقوله تعاليٰ:"ابن التین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اورآیت میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیوں کہ بلاشبہ مردے نہیں سنتے ہیں،لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کو سنانے کا ارادہ کرے،جو سنا نہیں کرتا تو اس میں کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہیں ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: إِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ (الاحزاب:72)
"بے شک ہم نے امانت کو(آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے)پیش کیا)اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
"تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ آؤخوشی یا ناخوشی سے"
اس مسئلے کے متعلق میرا ایک مضمون فتاویٰ نذیریہ(1/411،412،413) میں بھی درج ہے،اس کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم۔
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(1273) صحیح مسلم رقم الحدیث(2870)
[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1304) صحیح مسلم رقم الحدیث(2873)
[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(975)