عامل اس کلام کا:
"اجيبوا او توكلوا ايها الوسواس الخناس لقلب كذا وكذا بالمحبة والمودة‘وعطفوا قلبه علي""اے وسواس خناس! فلاں فلاں کی محبت ومودت کی فرمائش پوری کرو یا اس کے ضامن بن جاؤ اور اس کا دل میری طرف مائل کردو"
بایں طور کے واسطے محبت یاکسی اور امر کے عمل میں رکھے اور قبل اس کلام کے تین سو بار سورہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھے اور ہر سینکڑے کے بعد اس کلام کا اعادہ کرے۔للہ فرمائیے کہ عامل اس کا مومن رہا یا داخل گروہ مشرکین ہوا؟بینوا توجروا!
جو کلام کے سوال میں مذکور ہے ،یعنی"اجيبوا او توكلوا ايها الوسواس الخناس !نائز کلام ہے اور ایسے کلام کا عامل سخت گناہگار ہے۔
اس لیے کہ اس کلام میں ارواح خبیثہ سے دعا اور نداواستمداد اور حاجت روائی چاہی گئی ہے اور یہ بات اصول اسلام کے خلاف ہے۔اسلامی مسئلہ یہ ہے کہ سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اور کسی سے اس طور سے استمداد جائز نہیں ہے۔ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
یعنی"اور جب تومدد چاہے تو اللہ سے مدد چاہ"
اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اپنے بندوں کو اس طرح کہنا تعلیم فرمایا:
"یعنی ہم تجھی کو پوجتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔