شخصے مے گوید کہ معنی حقیقی ومفہوم تحقیقی این کلمہ توحید یعنی لاالٰہ الا اللہ ہمین است کہ ہیچ چیز غیرحق نیست،بلکہ تمامی اشیاء باعتبار حقیقت عین وے اند ،اگرچہ باعتبار تعین وتشکل اعتباری غیر ہستند ودرحق ہمگی علمائے سابقین کہ قائلیں ایں معنی نبودند میگو ید کہ تمامی محدثین ومفسرین وجملہ فقہائے متکلمین شرقاً و غرباً جنوباً وشمالاً وسلفاً وخلفاً کلمہ طیبہ ر ابکلمہ خبیثہ بدل کردند،یعنی لا الٰہ الا اللہ وال الٰہ غیراللہ بلا الٰہ الا غیر اللہ تبدیل دارند واز صراط مستقیم توحید پابیروں نہادند الرزیۃ کل الرزیۃ تمت عبارتہ بالفاظہ ودیگرے دریں قول سے نظرے میکند کہ معنی مذکور ازادق مسائل است وکدامی ادق مسائل تعلیم اولین ہر امی دانشمند نتو اندوحال این کہ معنی حقیقی کلمہ طیبہ تعلیم اولین ہرامی ودانشمند است پس لابدی معنی کلمہ طیبہ نہ آنست کہ مذکور شد وسپس آں میگو ید کہ ترکیب کلمہ طیبہ مثل ترکیب لاکاتب الا زید،ولا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم الامحمد است،وچوں مراد ازیں ہر دو ترکیب ہمین است کہ حصر صفت کتابت در زید است وحضر صفت ختم نبوت در محمد صلی اللہ علیہ وسلم ودر غیر آں یافتہ نشود پس ہم چنیں لا الٰہ الا اللہ را باید فہمید،چہ الٰہ بمعنی معبود است،پس معنی دی لا معبود الا اللہ است۔یعنی حصر صفت معبودیت در اللہ است ودر غیر آں نیست چہ در اعتقاد مشرکین بود کہ اللہ تعالیٰ ودیگر مخلوق دے لا معبود در صفت معبودیت مشترک اند وعبادت غیر وے را نیز می کردند کلمہ طیبہ از بہر رد اعتقاد اوشاں نازل گردید پس معنی لاالٰہ الااللہ جز ایں نیست کہ نیست معبودے مگر اللہ ہم چنیں معنی لاکاتب الا زید نیست کاتبے مگرزید ،ودرحق علمائے کرام ازاہل اسلام ایں زعم کردن کہ او شایاں کلمہ طیبہ رابکلمہ خبیثہ تبدیل داوند واز صراط مستقیم بابیروں نہادند نافہمی زاعم است وخوف تلف ایمان وی واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
الحال استفسار است کہ قول شخص اول صحیح است یا شخص آخر بہ تقدیر اول جواب نظر مطلوب است بر تصدیر ثانے تصدیق وتصیح آں۔
"ایک شخص کہتا ہے کہ کلمہ توحید یعنی"لاالٰہ الا اللہ" کا حقیقی معنی اور تحقیقی مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز غیرحق نہیں ہے۔بلکہ حقیقت کے اعتبار سے تمام اشیاء اس کا عین ہیں،اگرچہ تعین وتشکل کے اعتبار سے غیر ہیں۔
سابقہ علماء میں سے جو اس معنی کے قائل نہیں تھے،ان کے حق میں وہ کہتا ہے کہ مشرق ومغرب،شمال وجنوب اور سلف وخلف کے تمام محدثین ،مفسرین اور جملہ فقہائے متکلمین نے کلمہ طیبہ کو کلمہ خبیثہ کے ساتھ بدل دیا ہے،یعنی"لا الٰہ الااللہ "اورلا الٰہ غیراللہ"کو"لا الٰہ الا غیراللہ"کےساتھ بدل دیاہے اور توحید کے راہ مستقیم سے اپنا پاؤں ہٹا لیا ہے۔
دوسرا شخص اس کے اس قول کو محل نظر ٹھہراتاہے۔ کہ مذکورہ بالا معنی دقیق ترین مسائل میں سے ہے اور ایسا دقیق مسئلہ ہر اَن پڑھ اور دانش مند کی ابتدائی تعلیم نہیں بن سکتا،حالاں کہ کلمہ طیبہ کا حقیقی معنی ہر اَن پڑھ اور دانش مندکی ابتدائی تعلیم ہے۔پس لامحالہ کلمہ طیبہ کامعنی وہ نہیں ہے جو ذکر کیا گیا ہے ۔اس کے بعد یہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ کلمہ طیبہ کی ترکیب:
"لا كاتب الا زيد "اور"لاخاتم النبيين الا محمد" کی طرح ہے۔جس طرح ان ہر دو جملوں کا مفہوم یہ ہے کہ صفت کتابت زید میں منحصر ہے اور ختم نبوت کی صفت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں منحصر ہے،ان کے غیر میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے،اسی طرح"لاالٰہ الا اللہ"کا معنی سمجھنا چاہیے۔وہ اس طرح کہ الٰہ کا معنی معبود ہے،لہذا کلمہ طیبہ کامعنی یہ ہو اکہ"لا معبود الالله"یعنی صفت معبودیت اللہ تعالیٰ میں منحصر ہے،اس کے غیر میں یہ صفت نہیں۔مشرکین کااعتقاد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی دوسری مخلوق صفت معبودیت میں مشترک ہیں،لہذا وہ اللہ کے سوا دوسروں کی بھی عبادت کرتے تھے۔کلمہ طیبہ ان کے اس عقیدے کو رد کرنے کے لیے نازل ہوا۔چنانچہ"لا الٰہ الا اللہ" کا معنی اس کے علاوہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود(برحق) نہیں ہے۔جس طرح"لا كاتب الا زيد "کا معنی ہے کہ زید ہی کاتب ہے۔
چنانچہ اہل اسلام علمائے کرام کے حق میں یہ گمان کرنا کہ انھوں نے کلمہ طیبہ کو کلمہ خبیثہ کے ساتھ بدل دیا ہے اور وہ ایسا کرکے راہ مستقیم سے ہٹ گئے ہیں ،گمان کرنے والے کی نافہمی ہے اور اس کا ایمان تلف ہونے کا خدشہ ہے۔واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
اب یہ سوال ہے کہ پہلے شخص کا قول صحیح ہے یا دوسرے آدمی کی بات درست ہے ؟پہلے کا قول درست نہ ہونے کی صورت میں محل نظر ہونے کا سبب مطلوب ہے اور دوسرے کی بات صحیح ہے تو اس کی تصدیق وتصیح درکار ہے۔
قول شخص آخر صحیح است وقول شخص اول ازصحت بمراحل دورست۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
"دوسرے شخص کی بات صحیح ہے ،جب کہ پہلے آدمی کی بات صحت وصواب سے نہایت بعید ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔کتبہ:محمد عبداللہ۔