سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(608) داڑھی کی حد

  • 2276
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2451

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کی شرعی حد کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللحية : يا داڑھى دونوں رخساروں اور تھوڑى پر اگنے والے بالوں كو كہتے ہيں:

ابن منظور رحمہ اللہ ـ ابن سيد سے نقل كرتے ہوئے كہتے ہيں:

«اللحية اسم جامع يجمع من الشعر ما نبت على الخدين و الذقن» : لسان العرب ( 15 / 243 )

داڑھى اسم جامع ہے جو دونوں رخساروں اور تھوڑى پر اگنے والے بالوں كو كہتے ہيں.

كانوں كے سوراخ كے برابر اونچى ہڈى پر اگے ہوئے بال داڑھى ميں شامل ہيں، اسے اہل لغت اسے العذار يعنى رخسارہ كا نام ديتے ہيں جو كہ جبڑے كا كنارہ ہے اور ان بالوں كو بھى مونڈنا اور اكھاڑنا جائز نہيں ہے، كيونكہ يہ بھى داڑھى ميں شامل ہوتے ہيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

داڑھى اور اللحيۃ سے كيا مراد ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

كانوں كے سوراخ برابر ابھرى ہوئى ہڈى سے ليكر چہرے كے آخر تک دارھى كى حد ہے، اور رخساروں پر اگے ہوئے بال بھى داڑھى ميں شامل ہيں.

القاموس المحيط ميں ہے:

اللحية : شعر الخدين و الذقن . القاموس المحيط ( 4 / 387 )

يعنى رخساروں اور تھوڑى كے بال داڑھى ہيں "

اس بنا پر جو شخص يہ كہتا ہے كہ: رخساروں پر موجود بال داڑھى ميں شامل نہيں ہيں تو اسے اس كى كوئى دليل پيش كر كے يہ ثابت كرنا ہو گا كہ يہ بال داڑھى ميں شامل نہيں.

مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 49)

شيخ رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:

كيا رخسار بھى داڑھى ميں شامل ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

جى ہاں دونوں رخسار بھى داڑھى ميں شامل ہيں؛ كيونكہ جس لغت ميں شريعت آئى ہے اس لغت كا تقاضا بھى يہى ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ قُر‌ء‌ٰنًا عَرَ‌بِيًّا لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ٢﴾.... سورة يوسف

’’بلا شبہ يقينا ہم نے قرآن مجيد كو عربى زبان ميں نازل فرمايا ہے تا كہ تم عقل كرو ‘‘

اور ايک مقام پر كچھ اسطرح فرمايا:

﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَ‌سولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ ....٢﴾..... سورة الحمعة

’’اللہ وہ ذات ہے جس نے امى ( ان پڑھ ) لوگوں ميں ايك رسول مبعوث كيا جو انہى ميں سے تھا، وہ ان پر اس اللہ كى آيات تلاوت كرتا اور انہيں پاک كرتا اور انہيں كتاب و حكمت كى تعليم ديتا ہے‘‘

اس سے يہ پتہ چلا كہ قرآن و سنت ميں جو كچھ بھى آيا ہے اس سے وہى مراد ہے جو عربى لغت متقاضى ہے، ليكن اگر اس كا كوئى شرعى مدلول ہو تو پھر اسے اس شرعى مدلول پر ہى محمول كيا جائيگا مثلا: الصلاۃ عربى زبان ميں دعاء كو كہا جاتا ہے، ليكن شريعت اسلاميہ ميں اس سے مراد وہ عبادت مراد ہے جو نماز كے نام سے معروف ہے، اس ليے جب قرآن و سنت ميں اس كا ذكر آئے تو اسے شرعى مدلول پر ہى محمول كيا جائيگا الا يہ كہ اگر اس ميں كوئى مانع آ جائے.

اس بنا پر داڑھى كے بارہ ميں شريعت اسلاميہ نے كوئى خاص شرعى مدلول نہيں بنايا تو اس ليے اسے لغوى مدلول پر محمول كيا جائيگا، اور اللحيہ يا داڑھى لغت عرب ميں ان بالوں كو كہا جاتا ہے جو جبڑوں اور رخساروں پر كانوں كے سوراخ كے برابر دوسرى طرف كى ہڈى پر اگے ہوتے ہيں.

القاموس ميں ہے:

رخساروں اور تھوڑى پر اگے ہوئے بال داڑھى ہيں۔

اور اسى طرح فتح البارى ميں لكھا ہے كہ:

«هي اسم لما نبت على الخدين والذقن فتح البارى» ( 10 / 35 ) طبع مكتبہ سلفيہ

دونوں رخساروں اور تھوڑى پر اگے ہوئے بالوں كا نام داڑھى ہے۔

اس سے يہ علم ہوا كہ دونوں رخسار داڑھى ميں شامل ہيں، اس ليے مؤمن شخص كو چاہيے كہ وہ صبر سے كام لے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كركے صبر كا مظاہرہ كرتے ہوئے اجروثواب حاصل كرے، اور اگر وہ كسى اجنبى علاقے ميں اجنبى ہو تو اس كے ليے ( دين پر عمل كرنے والے كے ليے ) خوش بختى ہے.

اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ حق كى پہچان كے ليے ميزان تو كتاب و سنت ہے، اس كا وزن اس كے ساتھ معلوم نہيں ہوتا جس پر لوگ ہوں اور وہ كتاب و سنت كے بھى مخالف ہو.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور ہمارے مسلمان بھائيوں كو حق پر ثابت قدم ركھے۔ مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 50 )

اور گردن پراگے ہوئے بال داڑھى كى حد ميں شامل نہيں، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ حلق كے نيچے والے بال اتارنے ميں كوئى حرج نہيں۔

الانصاف ( 1 / 250 )

يہ اس ليے كہ يہ بال داڑھى ميں شامل نہيں ہيں۔

شيخ محمد السفارينى كہتے ہيں:

الاقناع ميں ہے كہ: معتمد مذہب يہ ہے كہ حلق كے نيچے والے بال اتارنے ميں كوئى حرج نہيں۔

«غذاء الالباب شرح منظومۃ الآداب» ( 1 / 433)

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ