سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(314) دکان یا دفتر کے افتتاح کے وقت فیتہ کاٹنا

  • 22747
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5621

سوال

(314) دکان یا دفتر کے افتتاح کے وقت فیتہ کاٹنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگوں کی یہ عادت ہے کہ جب کبھی کسی دکان یا دفتر وغیرہ کا افتتاح کرتے ہیں تو فیتہ کاٹتے ہیں اور اس میں بڑے بڑے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کیا کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی دکان، فیکٹری، دفتر وغیرہ کا افتتاح کرنے کے لئے پہلے فیتہ باندھ دینا پھر کسی بڑے آدمی کو بلا کر بسم اللہ کروانا اور فیتہ کاٹنا کسی صحیح حدیث یا آثار صحابہ سے ثابت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی فائدہ ہے یہ صرف غیر مسلموں کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے کسی بھی اچھے کام کے افتتاح سے پہلے جو طریقہ کات بتایا ہے وہ استخارہ ہے یعنی باوضو ہو کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں پھر دعائے استخارہ پڑھیں پھر محنت، توجہ اور اخلاص کے ساتھ کام کریں۔ ملاوٹ، ظلم، دھوکہ دہی، کرخت رویہ جیسے اخلاق رذیلہ سے اجتناب کریں تو اللہ تبارک و تعالیٰ خیر و برکت نازل کرے گا البتہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلا پھل دیکھتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ اے اللہ ہمارے پھل میں برکت نازل فرما اور ہمارے شہر میں برکت نازل فرما اور ہمارے صاع میں برکت نازل فرما اور ہمارے مد میں برکت نازل فرما۔ اے اللہ بلاشبہ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کے لئے دعا کی اور میں تجھ سے اسی طرح کی مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔ (صحیح مسلم کتاب فضایل المدینۃ 1373)

اور دوسری حدیث مسلم میں ہے کہ آپ کے پاس بچوں میں سے جو بھی چھوٹا بچہ حاضر ہوتا آپ اسے وہ پھل دے دیتے۔ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی کام نیا نیا ہو تو کسی صالح اللہ کے ولی کے پاس جا کر دعا کروائیں اور اگر پھل نیا نیا تیار ہو تو دعا کروا کے کسی سب سے چھوٹے بچے کو دے دیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الادب،صفحہ:401

محدث فتویٰ

تبصرے