السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنے بیٹے عاصم مشتاق کی پیدائش سے قبل منت مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا تو اس کو اللہ کے راستے میں وقف کروں گا اب یہ الدعوۃ پبلک سکول کوٹلی لوہاراں میں روضہ II کلاس کا طالب علم ہے دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا میں اس کو گھر کا چھوٹا موٹا کام کہہ سکتا ہوں یا کہ نہیں۔ (سائل مذکور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے لئے وقف شدہ بیٹے کا مفہوم تو یہ ہے کہ اسے دین اسلام کی سر بلندی کے لئے لگا دیا جائے تاکہ یہ اللہ کے دین کا کام کرے اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ والدین اپنے بیٹے کو خدمت وغیرہ کا کوئی کام نہیں کہہ سکتے۔ والدین کی اطاعت بھی دین اسلام میں داخل ہے اور نیک اولاد اللہ کے حقوق بھی ادا کرتی ہے اور والدین کے بھی آپ اسے خلاف شرع کوئی کام نہیں کہہ سکتے۔ اور نہ ہی جب یہ بڑا ہو جائے اسے دنیاوی جھمیلوں میں جھونک سکتے ہیں اور خالص اللہ کا دین پڑھائیں اور مجاہد فی سبیل اللہ بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں اور کاوشوں کو دین اسلام کی سر بلندی کے لئے بار آور کرے۔ (آمین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب