سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(284) کبوتر اڑانا اور مرغ لڑانا

  • 22717
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5030

سوال

(284) کبوتر اڑانا اور مرغ لڑانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کبوتر اڑانے والے اور مرغ لڑانے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ (سائل مذکور ۔۔۔)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت کی نظر میں کبوتر بازی مکروہ ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک کبوتر کے پیچھے دوڑتا ہوا دیکھا تو فرمایا:

شیطان شیطانہ کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ (مسند احمد 17/221 (8543) ابن ماجہ 3765، الادب المفرد 1300، المسند الجامع 17/639)

قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں کبوتروں کے ساتھ کھیلنے کی کراہت پر دلیل ہے اور یہ ایسا کھیل ہے جس کی شرع میں اجازت نہیں دی گئی اور شیطان کا لفظ ایسے آدمی پر بولا جانا اس پر دلالت کرتا ہے اور کبوتری پر شیطانہ کے لفظ کا اطلاق یا تو اس وجہ سے ہے کہ وہ آدمی کے اس کے لیے پیچھے لگنے کا سبب ہے۔ یا وہ ایسا شیطانی عمل کرتی ہے کہ اس کی مطابقت اور اس کے حسن صورت اور نغمے کی عمدگی کے باعث انسان اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ یا وہ حقیقت میں کبوتر کی شکل میں جن شیطان ہے جو آدمی کو اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے۔ (فضل اللہ الصمد 2/684)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بچے نکلوانے اور انڈے لینے یا انس کے لیے یا خطوط بھیجنے کے لیے کبوتر رکھنا بلا کراہت جائز ہیں۔ بہرکیف کبوتروں کے ساتھ کھیلنے کے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ مکروہ ہے اور اگر اس کھیل کے ساتھ جوا مل جائے تو حرام ہے۔ (فضل اللہ الصمد 2/684 مرقاہ شرح مشکوٰۃ 8/280)

رہا جانوروں کو آپس میں لڑانا تو یہ بھی شرعا حرام ہے کیونکہ جانوروں کو ایذاء دینا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔ جانوروں کو لڑانے کے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یوں ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانوروں کو ایذاء و تکلیف دینا درست نہیں جیسا کہ مسند ابی یعلی 651 اور مسند بزار 2063 میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کے چہرے پر داغ لگایا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا: جاؤ اونٹ کے مالک سے کہو کہ اس کے چہرے سے آگ کو دور رکھے الحدیث۔ انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی لعنت برسے اس آدمی پر جس نے یہ داغ دیا۔(مسند بزار 2065 طبرانی اوسط 5/157 مجمع الزوائد 13240)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا تھا آپ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے اس آدمی پر لعنت کی ہے جس نے جانوروں کے چہرے پر داغ دیا یا مارا پس اس کام سے منع کر دیا گیا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب النہی عن الوشلم فی الوجہ 2564، مسند احمد 22/72)

یہ بات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم (2118) ابو سعید خدری اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن ابی شیبہ 5/406،407 میں موجود ہے ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ جانوروں کو لڑانا اور انہیں ایذاء دینا کسی طرح بھی جائز نہیں لہذا مرغ، کتے، بٹیر، تیتر وغیرہ کو لڑانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ لہذا جو لوگ جانوروں کو لڑاتے یا لڑا کر ان پر جوا لگاتے ہیں وہ فعل حرام کے مرتکب ہیں انہیں اس فعل سے باز آ جانا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الادب،صفحہ:379

محدث فتویٰ

تبصرے