سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(275) جھوٹی قسم کا کفارہ

  • 22708
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1700

سوال

(275) جھوٹی قسم کا کفارہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی بندہ مشکل میں پھنس جائے اور جھوٹا قرآن اٹھانے پر اس کی مشکل حل ہو جائے تو ایسے شخص کے لئے کیا سزا ہے اسے کیا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ (سائل مذکور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جھوٹا حلف اور قسم اٹھانی کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ (بخاری)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے کر آئے۔ ان دونوں میں سے ایک (مدعی علیہ) پر قسم واقع ہو گئی۔ اس نے کہا مجھے اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں مدعی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا قسم کھانے والا جھوٹا ہے۔ مدعی کا حق اس کے پاس ہے آپ نے اس کو مدعی کا حق ادا کرنے کا حکم دیا جبریل نے کہا اس کی قسم کا کفارہ لا الہ الا اللہ کی معرفت ہے یا لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ (مسند احمد 1/296، 253، 288، 322، 2/70 مستدرک حاکم 4/96 ابوداؤد 3275 اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا)

امام ابوداؤد فرماتے ہیں اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ تفسیر احسن البیان ص 322 میں ہے کہ قسم تین قسم کی ہیں۔ "لغو، غموس، معقدہ۔

لغو وہ قسم ہے جو انسان بات بات پر عادتا بغیر ارادہ اور نیت کے کھاتا رہتا ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ غموس وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں۔ معقدہ وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے ارادتا اور نیتا کھائے ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ یعنی سورۃ مائدہ آیت نمبر 89 میں۔

معلوم ہوا کہ جھوٹی قسم کا کفارہ نہیں صرف اخلاص کے ساتھ کلمہ طیبہ کی شہادت دیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں اللہ تعالیٰ غفور و تواب ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الایمان والنذور،صفحہ:367

محدث فتویٰ

تبصرے