سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(272) کافر کے بدلے مسلمان کا قتل

  • 22705
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1666

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کرنا جائز ہے کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسلمان آدمی کو کافر کے بدلے قتل کرنا جائز نہیں امام شافعی، امام احمد، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام اسحاق بن راھویہ اور اہل ظواہر اسی بات کی طرف گئے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَفَنَجعَلُ المُسلِمينَ كَالمُجرِمينَ ﴿٣٥ ما لَكُم كَيفَ تَحكُمونَ ﴿٣٦﴾... سورة القلم

"کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین (کفار) کی طرح بنا دیں تمہیں کیا ہو گیا کیسے فیصلے کرتے ہو۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ﴿١٤١﴾... سورة النساء

"اور اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے مومنوں پر ہرگز کوئی راہ نہیں بنائے گا۔"

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا لا يَستَوۥنَ ﴿١٨﴾... سورة السجدة

"کیا پس مومن فاسق کی طرح ہو سکتا ہے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔"

یہ آیات بینات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کافر مسلمان کے مساوی نہیں ہو سکتا اور جب ان دونوں میں تساوی نہیں تو مسلمان سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اس بات کی مزید توضیح کرتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيَرُدُّ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ أَلَا لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِه) (ابوداؤد، کتاب الجھاد 2701)

مسلمانوں کے خون برابر ہیں ان کا ادنیٰ سا آدمی ذمہ و امن دے سکتا ہے اور دور جگہ کا رہنے والا مسلمان پناہ دے سکتا ہے اور یہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں یکمشت ہوتے ہیں۔ طاقتور اور تیز رفتار سواریوں والا کمزور سواریوں والے کے قریب رہے اور جب لشکر میں سے کوئی ٹکڑے نکال کر مال کما دے تو باقی لوگوں کو اس میں شریک کرے اور مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ذمی جس سے عہد لیا گیا ہو۔ مسند احمد میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ (بخاری، احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی)

لہذا کسی مسلمان آدمی کو کافر کے بدلے قتل کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ جو لوگ عصر حاضر میں یہ واویلا کئے جا رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن یا اس کے دیگر مجاہد ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دینا چاہیے انہیں ان قرآنی اور حدیثی نصوص پر غور کرنا چاہیے اور اپنے ناجائز مطالبات سے باز آ جانا چاہیے اور اہل کفر کی سازشوں کو سمجھنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الحدود،صفحہ:358

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ